Tuesday, August 16, 2011

MERE PAYAM SE WAQIF NAHIN




Friday, March 25, 2011

آزاد شاعری کی معنویت اور مقصدیت ؟

آزاد شاعری کی معنویت اور مقصدیت ؟

علیم خان فلکی
یہ کیا ستم ہے کہ دنیا کے تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے لئے تو ہم استادوں اور تربیت گاہوں میں جانے کو لازمی مانتے ہیں اور اس علم سے متعلق ہر قسم کے کلی یا جزوی فروعی یا ثانوی حیثییت رکھنے والے ہر نکتے کو ازبر کرکے اس میدان میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ آج تک کسی کو آزاد کمپیوٹری کرتے یا آزاد کرکٹ کھیلتے نہیں دیکھا گیا لیکن شعر و ادب کو جانے کیوں لوگ ہر اصول سے آزاد کرکے سستے بازار میں لانا چاہتے ہیں۔
دراصل یہ سہل پسندی کی نفسیات ہے کہ جس طرح ہر شخص کرکٹر نہیں بن سکتا لیکن ِ بمجبوری ِ شوق گلی میں بچوں کے ساتھ دوچار شارٹ مار کر دل کی تسلی کر لیتا ہے اسی طرح غزل کہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی اس لئے بمجبوری ِشوق لوگ آزاد شاعری کر کے اپنا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ ان میں شاعری کا ذوق تو بھر پور ہوتا ہے لیکن اس کے لیے مطلوبہ فکری صلاحیتیں نہیں ہوتیں ، تخلیقی جوھر نہیں ہوتے اور نہ فرصت اتنی ہوتی ہے کہ وہ شعرکہنے کا فن سیکھیں ۔شعر سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا فن ہے شاعری فکر ِ رسا کی متقاضی ہے احساس و جذبات کی شدتیں چاہتی ہے لیکن ایک سطحی خیالات رکھنے والا عام آدمی اس سے محروم رہتا ہے اس لئے وہ شاعری جس سطح کی کر سکتا ہے اْسے آزاد شاعری کا نام دے دیتا ہے۔ آزاد شاعری چاہے وہ نظم ہو یا غزل یا نثری نظم وغیرہ شائد آزاد کی اصطلاح اس لئے گھڑی گئی کہ یہ پابندی ِ ردیف وقافیہ سے آزاد ہوتی ہے بلکہ بعض آزاد شاعری کرنے والے عروض کی پابندی بھی ضروری نہیں سمجھتے ، لیکن جس قسم کی آزاد شاعری پچھلے تین چار دہوں میں وجود میں آئی ہے جسکے علمبردار زیادہ تر یا تو ترقی پسند رہے یا جدیدیت پسند ، اسکا بغور مطالعہ کرنے کے بعدیہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ آزاد اس لئے کہلا تی ہے کہ اس کی اکثریت روایت سے آزاد ہے ،اخلاقیات سے آزاد ہے، جمالیات و رومانیت سے آزاد ہے ، غیر عقلی تراکیب استعارے تشبیہات اور ماڈرن آرٹ کیطرح ناقابل ِ فہم علامتیں ، جنسیات ، پست درجے کے عاشقانہ اور سفلی جذبات ، اختلاط ، ابہام یہی سب کچھ تو آزاد شاعری میں بھرا پڑا ہے۔ اگر چکہ اچھے سنجیدہ اور فکری مضامین بھی آزاد شاعری میں پیش کئے گئے ہیں لیکن ن ۔م۔ راشد ، میرا جی ، فیض احمد ندیم قاسمی علی سردار جعفری وغیرہ سے لیکر آج کے کسی بھی شاعر کی آزاد شاعری پڑھ ڈالئے اور بتائیے کہ کہیں کوئی رومانیت یا جمالیاتی کیفیت پیدا ہوتی ہے؟ شاعری وہ ہے جو سامع یا قاری کے دل کے تاروں کو چھیڑ دے اس کے احساس میں کوند لپکے عام سطحی سوچ سے کہیں بلند ایسا کوئی نکتہ شعر میں نظر آئے جسے عام آدمی سوچ تو سکتا ہے لیکن الفاظ نہیں دے سکتا۔ آزاد شاعری در حقیقت کمسن بچوں کا سا ایک انداز ِ بیان ہے ۔ ریل گاڑی ، پرندے ، اندھیرے، وغیرہ ان مضوعات پر دوچار سال کے بچے بھی اپنا جس انداز میں اظہار کرتے ہیں آزاد شاعری میں ذرا بہتر الفاظ اور بہتر ترکیبوں کے ذریعے اظہار کیا جاتا ہے مثال کے طور پر وزیر آغا کی یہ نظم لے لیجئے ۔
رس بھرا لمحہ
نہ جانے کن کٹھن راہوں سے ہوکر
آج میرے تن کے اس اندھے نگر میں
ایک پل مہماں ہوا ہے
رس بھرا لمحہ
سمے کی شاخ سے ٹوٹا
میری جھولی میں گرا
آج میرا ہو گیا
رس بھرا لمحہ
( سہ ماہی ترکش : جون 2004 ء )
حیرت شاعری پر نہیں ، حیرت وزیر آغا پر ہے کہ ادب میں یہ بہت بڑا نام ہے تنقید اور انشائیہ نگاری میں وزیر آغا نے ایک الگ تاریخ بنائی ہے ساختیات پر اتنا کچھ لکھا کہ خود گوپی چند نارنگ حیران ہیں کہ ان کا اچھالا ہوا سکّہ کیسے اتنی دور تک چل گیا؟ ویسے ساختیات خود ایک ایسا متازعہ موضوع ہے جو ہمیں تو لگتا ہے کہ اچھے اچھے سمجھدار ادیبوں اور دانشوروں کو ادب سے ہٹا کر ایک سنجیدہ نما غیر سنجیدہ بحث میں مشغول کر دینے کی ایک دانستہ شرارت ہے ۔ کاش وزیر آغا اپنا معتبر نثری میدان چھوڑ کر ایسی سطحی شاعری کے میدان میں ہاتھ نہ ڈالتے ۔ مذکورہ نظم میں جس قسم کی علامتیں یا استعارے ہیں وہ اس وقت تک سمجھ میں نہیں آتے جبتک ماڈرن آرٹ کی طرح آرٹسٹ خود ہی نہ بتائے ۔ اور نہ یہ شاعری فی نفسہ اپنے اندر کوئی داخلی کیفیت یا خارجی احساس کو لطف بخشنے والی ہے۔ اب آئیے اس کے مقابلے میں شکیل بدایونی کے اس شعر کو لیجیے ۔
آج اک اجنبی سے نگاہیں ملیں صرف اک لمحہ ء مختصر کے لئے
زندگی اس طرح مطمئن ہو گئی جیسے کچھ پا لیا عمر بھر کے لئے
بات اْسی لمحے کی ہے لیکن دونوں کے انداز ِ بیاں کا تقابل کیجئے شکیل کے لمحے کو آدمی اپنے اندر محسوس کرتا ہے خود بھی سرور بھری یادوں میں کھو جاتا ہے۔ جبکہ وزیر آغا کا رس بھرا لمحہ قاری کے ذوق اور احساس کو اسقدر پھیکا کر دیتا ہے کہ قاری جھلاّ جاتا ہے کہ بھلا یہ کونسا لمحہ ہے کیسا لمحہ ہے ؟ اس رس بھرے لمحے میں واقعی رس گھولنے کے لئے جس لفظی آہنگ اور گہرائی وگیرائی کی ضرورت ہے وہ نہ وزیر آغا کے پاس ہے اور نہ اسطرح کی شاعری کرنے والے کسی شخص کے پاس۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ قاری کی توجہہ حاصل کرنے کے لیے نظموں کا عنوان بڑا دلچسپ منتخب کرتے ہیں یہ تو نظم پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا اْس میوہ فروش کی طرح جو میٹھا آم ۔ میٹھا آم پکار پکار کر فروخت تو کرڈالتا ہے لیکن بعد میں بے چارے خریداروں کو پتہ چلتا ہے کہ وہ آم کتنے میٹھے تھے۔ اسی طرح ایسے کئی بے شمار رس بھرے لمحے مختلف دلچسپ عنوانات سے آ ئے دن اخبارات رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن آج تک کوئی رس بھرا لمحہ شکیل ، خمار، غالب و اقبال کی گرد تک نہ پہنچ سکا۔
آزاد شاعری کے وکیل آزاد شاعری کے ذریعے علامت نگاری استعارہ نگاری اور تشبیہ سازی کے فن کو نکھارنے کا دعوی کرتے ہیں بلکہ بعض تو اس کے موجُد ہو نے کا بھی ۔ دراصل علامت اور استعارے ہر زبان کے شعر و ادب میں موجود ہیں اور اردو شاعری میں تقریبا دو صدیوں سے موجود ہیں لیکن آزاد شاعری میں یہ اس لئے انوکھے سمجھے جاتے ہیں کہ یہ علامتیں اور استعارے اردو زبان یا کلچر سے نہیں لئے جاتے بلکہ انکاسرچشمہ مغربی ادب ہے جن لوگوں نے جیسے ستیہ پال آنند وغیرہ ہیں ۔ راست مغرب سے مطالعہ کرکے اس نہج کو اردو میں رائج کرنے کی کوشش کی ایسے چند ایک ہی لوگ ہیں باقی بھیڑ اندھی تقلیدکرنے والوں کی ہے جنھوں نے نقل کو بھی عقل کی ضرورت ہے کے اصول کو نظر انداز کر تے ہوے عجیب و غریب احمقانہ علامتیں اور استعارے بنا ڈالے اور سورج کو مرغ کی چونچ پر لا کھڑا کیا ۔یہ لوگ ایلیٹ وغیرہ کو سب سے زیادہ حوالہ بناتے ہیں۔یہ یاد رہے کہ ایلیٹ کی نظموں کی اکثریت منظوم ڈراموں پر مشتمل ہے اور ڈرامے میں پورا ڈائلاگ شعر میں نہیں کہا جاسکتا اور نہ اسکی ضرورت ہے بلکہ ایک عام اندازسے ہٹ کر کچھ انوکھا پن پیدا کرنا لازمی ہوتا ہے اسلئے انہوں نے اپنی زبان کو ایک نثری شاعری کے طور پر استعمال کیا لیکن اس نقل کیوجہ سے جو رس بھرے لمحے اردو میں پیدا ہوگئے نہ وہ شاعری کہلا سکے نہ نثر۔بلکہ یوں کہوں تو بیجا نہ ہوگا کہ ان لمحوں کی حیات انہی چند لمحوں تک ہے جب تک آپ یہ رسالہ یا اخبار اپنے ہاتھ میں لیکر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالتے ہیں اور پھر ردی کے حوالے کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ولی دکنی کے دور یا اس سے قبل کے دور میں اردو شاعری جس ارتقاء کی ابتدائی منزلوں سے گزر رہی تھی اور جس قسم کا ابہام اسمیں پایا جاتا تھا آج مغربی شاعری اسی اسٹیج میں ہے اور ہمار ے بیچار ے آزاد شعراء اسی دور ِ ابہا م میں کھو کر اپنے آپ کو ترقی پسند یا جدیدیت پسند سمجھ رہے ہیں۔اس حقیقت کی گواہی کیلئے آپ کو آج کی شاعری اور قدیم اردو شاعری دونوں کو پڑھنا ہوگا۔
سوا ل یہ ہیکہ آزاد شاعری کی اسقدر ہمت افزائی کیسے ہو گئی ؟
ترقی پسند اور جدیدیے کوئی اہم موضوع نہ ہوتے ہوئے بھی سب سے بڑا موضوع کیسے بن گئے؟۔ دراصل جنگ آزادی کے دوران جب ترقی پسندوں کی پہلے پہل آواز اٹھی تو یہ نئی آواز تھی، نئی ہیروئن ہو کہ نیا کرکٹر ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں،کچھ تو سیاسی پارٹیوں کی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں کارکن درکار ہوتے ہیں پھر ان کارکنان کی دلچسپیوں اور حوصلوں کو باقی رکھنے کے لئے ہوم ورک بھی دینا ضروری ہوتا ہے ۔اسلئے ترقی پسند اشتراکیت کے علمبرداروں نے ہر شخص کو کسان ،مزدور ، درانتی ،مظلوم ، مدح ِاشتراکیت و مخالفت ِسرمایہ داری جیسے موضوعات پر لکھنے کی ترغیب دی اور ایک دوسرے سے مقابلے میں مشغول کردیا ۔سجاد ظہیر ، مخدوم وغیرہ نہیں جانتے تھے کہ ادب کے پس ِپردہ جو نظریات اور قوتیں کام کر رہی ہیں وہ کتنی کمزور اور کھوکھلی ہیں اْنہیں تو ترقی پسند ادب و ادیب و شعراء درکار تھے اْس وقت اْنکے پاس وہ علم وادب سے بہرہ ور افراد نہیں تھے جو کارکنان کی تربیت کرتے اسلئے جو بھی لکھا گیا ،افسانہ ہو کہ ڈرامہ نثری نظم ہو کہ آزاد غزل سب کی پیٹھ ٹھونکنا اور اسکی دلجوئی کرنا انکے لئے لازمی تھا۔ اصلاح کرنے بیٹھتے تو پارٹی کے دوسرے کام کون کرتا ؟ ایک کام ترقی پسندوں نے جو اہم اور تاریخی کیا وہ تھا میڈیا پر قبضہ ، میڈیا ہر دور میں نیو کلیرطاقت سے زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ان لوگوں نے بڑی محنت کے ساتھ اخبارات و رسائل اور ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کیا ۔ ادیب و شاعر کی کمزوری ہردور میں شہرت پسندی رہی ہے۔کسی کی کوئی تخلیق شائع ہو جاے یا تصویر چھپ جائے تو بیچارہ شام تک عید مناتا ہے اور اگر کسی کو ریڈیو پر آنے کاموقع مل جائے تو گویا اس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑدئیے۔ اور اگر کسی کو پارٹی فنڈ سے بمبئی دہلی یا ماسکو کا خرچہ دیکر بلایا جائے تو گویا اس نے سکندر آعظم کی طرح پورا ملک ہی فتح کرلیا ۔
یہی وہ دور تھاجب آزاد غزلوں آزاد نظموں وغیرہ کی گونج سنائی دینے لگی تھی۔ چونکہ ہر اخبار رسالے یا ریڈیو اسٹیشن میں انہی کے آدمی بیٹھے ہوتے جو کامریڈ کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور اس طرح ان کی ہر لغو تحریر بلا کسی تاخیر کے شائع یا نشر ہو جاتی اور دوسری طرف اہل ِ ہنر کی تخلیقات منہ دیکھتے رہ جاتیں،اسی دور میں کیفی ، جاں نثار اختر ، اختر الایمان ، خوا جہ احمد عباس، وغیرہ نے فلموں میں داخلہ لیا ، غریبوں مزدوروں اور مظلوموں کو امیروں کے استحصال سے آزاد کروانے والوں نے خود امیری کا راستہ ڈھونڈ لیا۔
میر و غالب کو کہاں جیتے جی شہرت مل سکی
فلم اور ٹی وی نے مجھ کو زندہ غالب کردیا
اسطرح آزاد حضرات میڈیا پر قابض ہوئے اور پابند بے چارے منہ لٹکائے دیوان خانوں میں مشاعرے پڑھتے رہے، پھر ترقی پسندانجمن جو در اصل ایک "انجمن ِستائش ِ باہمی انجمن" تھی جب اتنی بڑی تعداد میں کارکنان ایک دوسرے کو سراہتے تو ہر نا پختہ شاعر و ادیب کے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا۔ اسکی ہر معمولی تخلیق کو گویا سند حاصل ہو جاتی۔ جس طرح ایک مولوی دو چار تقریریں کرنے کے بعد اپنے آپ کو بہت بڑا عالم و قائد سمجھنے لگتا ہے اسی طرح نفسیاتی طور پر یہ کچے پکے شاعر و ادیب اپنے آپ کو غالب و اقبال کے استاد سمجھنے لگے اور انکی تعریف میں بھی خوب لکھا جانے لگا۔ بلکہ پارٹی ڈسپلین کا تقاضہ تھا کہ ایک دوسرے کی خوب مدح سرائی کریں اس طرح ترقی پسند حضرات ایک موضوع بن گئے ،انکا تقریباً پندرہ سال زور و دبدبہ رہا ،چونکہ یہ ایک ہنگامی حالات میں اٹھنے والی تحریک تھی اس لئے ایسی تحریکوں کی عمریں زیادہ نہیں ہوا کرتیں لوگ جسطرح ایک فیشن سے اکتا جاتے ہیں اسی طرح ان وقتی تحریکوں سے بھی اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسکا فائدہ کسی اور کو پہنچتا ہے جسطرح آپ سیاست میں دیکھتے ہیں کہ ایک پارٹی سے لوگ بیزار ہو جاتے ہیں تو کسی متبادل کی تلاش اور تغیر کی کوشش میں کسی بھی ایرے غیرے کو ووٹ ڈال دیتے ہیں، اسی طرح ترقی پسندوں کے زوال کا فائدہ جدیدیت پسندوں کو پہنچا حالانکہ یہ ترقی پسندوں سے کہیں زیادہ کمزور غیر اساسی اور غیر سنجیدہ نظریہ پر قائم چند منتشر الخیال شاعروں اور ادیبوں کی تحریک تھی لیکن واقعاتی طور پر ترقی پسندوں کی وارث ثابت ہوئی ۔ جدیدیت کی شہرت میں ان کا اپنا کوئی ہاتھ نہیں تھا بلکہ یہ قدرت کی مہربانی تھی کہ متبادل کوئی نہیں تھا لوگ نشے کے عادی ہو چکے تھے اسلئے ترقی پسند نہ سہی جدیدئے ہی سہی ،کچھ نہ کچھ تسکین کا سامان تو بہرِ حال میسر تھا۔ ترقی پسندوں سے جو بیزارگی تھی وہ جدیدیت کے لئے حمایت کا ثبوت نہیں تھا بلکہ ایک مجبوری تھی۔کوئی شکست خوردہ جماعت کا ساتھ نہیں دیتا اسلئے اب زیادہ تر جھکاؤ جدیدیت پر ہونے لگا لیکن اب جب کہ دو دہے گزر چکے ہیں لوگ سوچنے لگے ہیں کہ ترقی پسندوں اور جدیدیوں سے ادب کو کیا ملا ؟ آج بھی ادب میں اگر باقی رہنے والی تخلیقات ہیں تو وہ غالب و اقبال ، میر و درد و مومن ہی کی ہیں یا چند ایک وہ غزلیں جو ترقی پسندوں کے پاس مل جاتی ہیں جنکا انکے نظریات سے کوئی خاص واسطہ بھی نہیں لیکن یہ غزلیں بھی خمار ،شکیل ،شمیم کی غزلوں کے مقابلے میں کوئی قابل ذکر مقام نہیں رکھتیں۔ اور اگر رکھتی بھی ہیں تو ان کا سہرا مہدی حسن نو ر جہاں اور محمد رفیع وغیرہ کے سر ہے ۔
شاعری اگر منصب شناس ہو تو جزو ِ پیغمبری ہے ورنہ جزوِ شیطانی ہے کسی بھی زبان کی شاعری ہو وہ اسکے کلچر مذہب اور تاریخ سے بہرحال گہرا واسطہ رکھتی ہے مغرب زدہ آزادی پسندوں نے ادب میں وہ چیزیں برآمد کرنے کی کوشش کی جو ہرگز اردو کے کلچر سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ ماہنامہ شاعر میں ایک آزاد نظم چھپی تھی بلکہ اکثر چھپتی ہی رہتی ہیں جس میں ایک بن بیاہی ماں کے جذبات کا اظہار کچھ یوں تھا گویا وہ لمحہ لمحہ عبادت کر رہی ہو۔ اسی طرح آزاد شاعری کے نام پر ہر رسالے میں ایسی نگارشات شائع ہوتی رہتی ہیں اسی لئے اس شاعری کو کسی طرح بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔شاعر قوم کا ضمیر ہوتا ہے اگر ضمیر کی گواہی کے ساتھ شاعری ہو تو وہ شاعری بیوی بیٹی بہن کے لئے بھی مسحور کن ہوتی ہے بلکہ رہنما بھی ہوتی ہے ورنہ ایسی شاعری وجود میں آتی ہے جسے کسی اور کی بیوی بہن یا بیٹی پر چسپاں کرکے مزہ تو لوٹا جاسکتا ہے لیکن جب وہی شاعری کسی اور کی زبانی خود شاعر کی بہن یا بیٹی تعریف میں پیش کی جاے تو شاعر کی شرم و حیا اور خوداری کا جنازہ نکل جاتا ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ شاعری میں اپنے تہذییبی و تاریخی اقدار کا مکمل خیال رکھا جائے ۔ آپ کی تہذیب خود آپ کے آبا ء و اجداد کی شناخت قایم کرتی ہے اور آنے والی نسلوں کی تہذیبی راہ بھی متعین کرتی ہے ۔آج کی آزاد اردو شاعری جو کہ مکمل مغرب یا چین و جاپان کی بے ربط شاعری کا چربہ ہے اسے دیکھ کر بے اختیار وہ لطیفہ یاد آجاتا ہے کہ ایک چڑیا کے جوڑے نے ایک کچوے کو بھی پال رکھا تھا چڑیا کے بچے جب بڑے ہوکر پھدکنے لگے اور پھدکتے پھدکتے گھونسلے سے باہر نکل کر اڑان بھرتے اور دوسری ٹہنی پر جابیٹھتے تو کچوے کا بچا بھی تقلید کرنے لگا اور پھدک پھدک کر اڑنے کی کوشش کرنے لگا اوراڑنے کی کوشش میں بار بار گرنے لگا ہر بار وہ زمین پر گرتا اور رینگتا ہوا واپس آتا اور اڑنے کی کوشش میں دوبارہ زمین پر گر پڑتا یہ دیکھ کر چڑے نے چڑیا سے کہا کہ اب وقت آگیا ہے ہم اس کو یہ بتادیں کہ تم اصلاً چڑیا نہیں بلکہ پالکڑے کچوے ہو ، آج کی مغرب کے نقال خود ساختہ آزاد شعراء نے بھی کچھ نیا کر گزرنے کی آرزو میں ادب کو ڈرامہ بنا دیا، اور شعر و ادب کی ہئیت ہی بدل ڈالی علامت رمزیت استعارہ گری اور اشاریت پر اتنا زور دیا کہ اصل مفہوم کے ساتھ ساتھ ادب کی چاشنی اور رومانیت خنم ہو گئی۔
اگر آزاد شاعری کے طرفدار ایمانداری اور غیر جانبداری سے آج تک کی پوری آزاد شاعری جس میں نظم ، غزل نثر وغیرہ سب شامل ہیں ان کا بغور مطالعہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مجموعی طور پراسمیں خدا بیزاری مادہ پرستی اور عشق کے پردے میں فحش سفلی جذبات کو تقویت دی گئی خدا بیزار اور اخلاق بیزار فلسفوں اور فلسفیوں کی جگالی کی گئی اس شاعری میں "ذات" اصل محور رہی ایسی ذات جو نہ ادبی و تہذیبی و ثقافتی اقدار میں دلچسپی رکھتی ہے نہ تاریخ و تحقیق میں اور نہ اسے عرفان ذات کا شعور حاصل ہے تنہائی اس کا محبوب مشغلہ ہے ذات ہی متکلم ذات ہی مخاطب ذات ہی سامع اور ذات ہی قاری ۔ اسی لئے ایسی تخلیقات باہر کی دنیا میں چالیس پچاس سال بھی اجنبی ہی رہیں ۔نہ یہ شاعری کا حوالہ بن سکیں نہ کوئی ضرب المثل ۔ اور نہ کسی مشاعرہ میں انہیں عزت و مقام مل سکا ۔ یہ اور بات ہے کہ اس قبیل کے شعراء او ادباء اس کو زندہ رکھنے کے لیے بحث و مباحثے ضرور کرتے ہیں لیکن وہ شاعری ہی کیا حسے ایک عام ذہن دل سے قبول نہ کرے ۔ آزاد شاعری کا خواص میں چاہے خوب چرچا ہو لیکن عم انسانوں میں اگر اس کو قبولیت نہ ملے تو یہ نہ صرف وقت بربادی ہے بلکہ قتل عام کی طرح کا جرم بھی یعنی ان صلاحیتوں کا قتل جو اگر کسی تعمیری اور مثبت فکری پیعام پر لگیں تو پوری قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہوتا ہے چونکہ ایک طاقتو ر ادب قوم کی تعمیر میں اہم رول ادا کرتا ہے اس لئے ہر لغو ادب قوم کی تعمیری فکروں کو ضائع کرنے والا ادب ہے بد قسمتی سے اس چل چلاو میں اچھے اورسمجھدار شعراء بھی کود پڑے جنھیں یا تو اپنے کلام کو ضخیم کرکے شائع کروانے کی جلدی تھی جو عموماً ہر شاعر کو ہوتی ہے۔ یا پھر ہر صنف میں غیر ضروری استادی دکھانے کا شوق ۔
آزاد شاعری کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ شاعر ہیں : افتخار امام صدیقی
اور نظم کا عنوان ہے : ایک نئی آواز ۔
رکھ دے
میری یاد داشت میں
وہ سب کچھ
جو تونے
کسی کوبھی عطا نہیں کیا
اور وہ بھی
جو تیرے پاس نہیں
مگر
خالق ہے تو
روح کی سچائی کا
تجسس تمام تر
لوح ِ محفوظ سے ماورا
یہ نثر ہے یا نظم ہے یا غزل یا کیا ہے ، یہ تو افتخار امام ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ رسالہ "شاعر" کے امام ہیں اور دنیا بھر کی آزاد شاعری انہی کے رسالے شاعر میں جمع ہوتی ہے۔اس لئے امامت کا تقا ضہ یہ ہے کہ وہ عام روش سے دو قدم آگے بڑھ کر شاعری کریں اسلئے اب اس کی تفسیر وہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں کے وہ کونسی چیز ہے جو خالق کے پاس نہیں ہے لیکن مخلوق کے ذہن میں موجود ہے اور وہ خالق سے اس کا ڈیمانڈ اس طرح کر سکتا ہے گویا خالق کسی فیکٹری کا مالک ہے جو کسٹمر کی مانگ پر نیا موڈل بنا کر فراہم کر دیتا ہے اور اس نظم کی آخری تین سطریں تو خالق کا قد مخلوق سے کتناچھوٹا ہے ثابت کر رہی ہیں۔محترم کی روح کی سچائی کا تجسس ان حقیقتوں سے بھی بہت آگے کہیں ہے جہاں تک لوح َ محفوظ بھی نہیں جاتی، کیا یہ اسی طرح کی بچکانہ سوچ نہیں ہے کہ ایک معصوم بچہ اپنے ابو سے کہتا ہے ، آپ کو تو کچھ نہیں معلوم۔
ہر ادبی رسالے میں آزاد شاعری کی بھرمار کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اردو کے قاری بہت تیزی سے کم ہو رہے ہیں، زبان کا تعلق صرف بول چال اور فلمی گیتوں تک رہ گیا ہے، چونکہ اردو کا معاش سے بھی تعلق ختم ہو چکا ہے اسلئے انگریزی یا پھر علاقائی زبانیں غالب ہیں، لوگ سوچنے بھی انگریزی میں لگے ہیں اور اسے کسی طرح بیان اردو میں کرنا چاہتے ہیں لیکن بیان و اسلوب کے فن سے واقف ہیں نہ سیکھنے کے ذرائع ہیں اسلئے اخبار و رسائل کو عام آدمی تک پہنچنے کے لئے اپنا ادبی معیار کم کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔ نتیجتاً بڑے شاعر ہوں کہ وزیر آغا جیسے تنقید نگار انہوں نے ضروری سمجھا کے بجائے عام آدمی کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی جاے، جیسا گاہک ویسا مال کی بنیاد پر سبھی نے آزاد شاعری کا ہراج ِعام لگا دیا ،یوں بھی رسالوں کی فروخت انکی بقا ء کے لئے لازمی ہے اسلئے لگے غزل پر تنقیدیں کرنے۔ اس لئے کہ آزاد شاعری کے لیے اس وقت تک راہ نہیں بنیت جب تک کہ غزل کی اہمیت کو نہ گھٹایا جائے یا کم سے کم غزل کے برابر کا درجہ نہ دے دیا جائے ۔ یہ صحیح ہے کہ غزل میں بھی آج نہ نئے موضوعات ہیں نہ تنوع نہ جمالیات نہ رومانیت ،لیکن اس میں غزل کا قصور نہیں افراد کا قصور ہے جو حالات کی کشاکش کے شکنجے سے باہر نکل کر تخیل کی ترویج کرنا نہیں چاہتے عام روش یہ ہے کہ ردیف قافیہ باندھا اور غزل مکمل کی۔موضوعات وہی جیسے محبوب کا گلشن میں آنا،دوستوں کا فریب ،زمانے کے ستم یا پھر حکمرانوں کا ظلم وغیرہ۔
لیکن جہاں تک غزل کا تعلق ہے یہ دنیا کی تمام اصناف سے منفرد صنف ہے۔ آزاد شاعری کی تائید میں یہ کہا جاتا ہے کہ مغرب کی تقلید نہیں بلکہ عربی فارسی میں اسکے برسہا برس پہلے تجربے ہو چکے ہیں، یہ ہو سکتا ہے سچ بھی ہو لیکن غزل نے ولی دکنی سے لے کر آج تک جو سفر طئے کیا ہے اسکا شعری آہنگ ایک قلعہ کی طرح مضبوط ہو چکا ہے یہ دو مصرعوں میں بڑی سے بڑی نظم کے بنیادی خیال کو سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے، آزاد شاعری کی ضرورت اس وقت پیش آسکتی ہے جب شاعر کو مختصر الفاظ میں اپنے خیال کو سمیٹنے کا فن نہ آتا ہو، مثال کے طور پر فسادات کے موضوع پر طویل نظمیں لکھی جاچکی ہیں لیکن تمام موجودہ موضوعاتی آزاد نظموں پر غزل کا یہ شعر بھاری ہے۔
کل مرگیا تھا جن کو بچانے میں پہلے باپ
اب کے فساد میں وہی بچے نہیں رہے
(نواز دیوبندی)
یا خمار کا یہ شعر کہ :
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے ز ما نہ نئی ر و شنی ہے
غزل اپنے دائرے میں دنیا کی تمام اصناف سے منفرد اور اجمالی اظہار کے لحاظ سے دنیا کی شاعری میں سب سے بلند مرتبہ رکھتی ہے جسکی ایک معمولی مثال ھندی فلم انڈسٹری بھی ہے جسکا ٹائٹل اگر چہ کہ ھندی کا ہوتا ہے لیکن ڈائلاگ اور نغمے اردو میں ہوتے ہیں جسکی وجہ سے نہ صرف ہندوستا ن کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں بلکہ عالمی فلم انڈسٹری میں تمام زبانوں کے مقابلے میں کئی درجہ زیادہ مقبولیت اور منافع کما رہی ہے۔ اگر ان گیتوں سے غزل کا آہنگ نکال کر ہندی یا کسی دوسری زبان کوٹھونس دیا جاے تو مجال ہے کہ ایک ہفتہ سے زیادہ فلم چل سکے۔ یا غزل انڈسٹری کودیکھ لیجئے وہ مہدی حسن ہوں یا غلام علی ہوں یا جگجیت سنگھ اگر غزل کو چھوڑ کر کسی آزاد نظم یا آزاد غزل کو گا کر دیکھیں پھر ان کی مقبولیت کا گراف کس طرح گرتا چلا جا ئے گا اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ البتہ آزاد شاعری قوّالی یا پاپ میوزک ڈسکو وغیرہ کے لئے انتہائی موزوں ہے اور خالص کلاسیکل موسیقی کے لیے تو آزاد شاعری موزوں ترین ۔ کیوں کہ اس میں راگ کے وزن کی اہمیت ہوتی ہے شعر کے وزن یا معنوں کی حیثیت ثانوی درجہ رکھتی ہے ۔
یہ صحیح ہے کہ شاعری پر قدغنیں نہیں لگائی جا سکتیں ، احساس اور خیال ہر شخص کے حصے میں نہیں آتا یہ بھی ایک الہام ہے اور ہر احساس اپنے اظہار کا وسیلہ ڈھونڈتا ہے اور احساس کے اظہار کا سب سے بڑا وسیلہ قلم ہے جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے احساس اور تخیل کا ہنر عطاء کیا ہے وہ قوم کے لئے ایک نعمت ہے اس شخص پر قد غنیں لگا کر فکر اور تخلیقی صلاحیتوں سے محروم نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جسطرح کسی بھی شخص کو کسی بھی پیشے یا علم و فن میں مہارت حاصل کرنے اور نام اونچا کرنے کی خواہش سے نہیں روکا جاسکتا اسی طرح کسی کو قلم کے کارواں میں بھی شامل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا لیکن جہاں دوسرے پیشوں یا علوم و فنون میں تربیت اور اصولوں کی پابندی لازمی ہوتی ہے اسی طرح ادب و شاعری میں بھی لازمی ہے ہر اہل ِقلم کو پہلے محنت کر کے انھیں سیکھناچاہیے۔ آنگنائے غزل میں سب کچھ ہے داخلی و خارجی حسیت ہے اورحسن و عشق کے نازک جذبات ہیں زمانے کے ستم دوستوں کے کرم ،حمد و نعت ، و مناجات ہی نہیں شکوہ اور جواب ِشکوہ جیسی انقلابی فکر بھی موجود ہے صحیح شعر گوئی پر وہ محنت کریں ۔بجائے اسکے کہ سانٹ، ہائکو، ترائکے، ماہئے ،گیت ،دوہے نثری نظمیں آزاد غزلیں وغیرہ جیسی عارضی اور پھیکی تخلیقات کہی جائیں صحیح غزل اور صحیح نظم پر توجہ دی جاے یا نثر کا شوق ہو تو ڈرامہ اور افسانہ نگاری ناول ناولٹ اخاکہ نگاری فکاہیہ وغیرہ پر محنت کریں ،تاکہ ادب بھی باقی رہے اور وسیلہء اظہار بھی۔ہر اچھے خیال کے اظہار کے لیے نظم یا غزل کہنا ہی لازمی نہیں بیشتر آزاد شاعری میں بعض اوقات بڑے اچھے اچھے خیال بھی نظر آجاتے ہیں جو اگر کسی نثر کی صنف میں ہوتے تو کہیں زیادہ بامعنی اثر انگیز اور دیر پا ہوجاتے مگر پتہ نہیں کیوں لوگ اسے آزاد شاعری میں بند کر کے ابہام میں غرق کردیتے ہیں اور ایک اچھے خیال سے دنیا محروم رہ جاتی ہے

Tuesday, March 15, 2011

خواجہ شوق گزرگئے

خواجہ شوق گزرگئے
 
حیدرآباد دکن کے نامور شاعر جناب خواجہ شوق کا طویل علالت کے بعد آج انتقال ھوگیا۔انالللہ و انا الیہ راجعون۔
مرحوم روایت غزل کے استاد اور نعت کے سب سے پسندیدہ شاعر تھے۔
مرحوم 18 جولائی 1925 کوشہر حیررآباد، دکن میں پیدا ھوئے، اصلی نام خواجہ حسین شریف تھا۔ منشی فاضل کی تکمیل کے بعد روزنامہ رھنمائے دکن سے وابستہ رھے۔ کئی علمی و ادبی اداروں سے بھی وابستہ رھے۔ ان کا مجموعہ کلام "چشم_نگراں" 1984 میں شائع ھوا۔ اور انتخاب نعت، سلام اور منقبت 1995 میں شائع ھوا۔ انہیں سنہ 2000 میں مخدوم ادبی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔
مرحوم کی ایک غزل کے چند یادگار اشعار :
اب دل کے زخم دیکھنے والا کوئی نہیں
چپ ھوگیاھوں سب کو اداکار دیکھہ کر
ھر دور میں بناتے ھیں راہ اپنی اہل_دل
دنیائے عقل و ہوش کی رفتار دیکھہ کر
پردے نہیں یہ ذوق_نظر کے ھیں مرحلے
جلوے دکھائے جاتے ھیں معیار دیکھہ کر
ویرانیاں دلوں کی بھی دیکھا کرو کبھی
شہروں کے خوش نما درودیوار دیکھہ کر
جو لوگ شوق ہوتے ھیں تہہ دار  و دوربیں
کم کم کسی پہ کھلتے ھیں بسیار دیکھہ کر

جگر مراد آبادی

جگر مراد آبادی :مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

پٹنہ   رضوان احمد
Jigar MuradabadiJigar Muradabadi
گذشتہ صدی میں جن شعرا نے مشاعروں کے حوالے سے بہت نام کمایا ان میں سب سے اہم نام جگر مراد آبادی کا ہے۔ مشاعروں کے افق پر وہ نصف صدی تک چھائے رہے اور برصغیر میں بے شمار مشاعرے پڑھے ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔
 
جگر مراد آباد ی کا اصل نام علی سکندر تھا اور وہ چھ اپریل 1890ءکو بنار س میں پیدا ہوئے تھے۔ عربی وفارسی ارد و کی تعلیم انہوں نے مراد آباد کے ایک مدرسے میں حاصل کی تھی۔ ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے وہ چشمے کی ایک دکان سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس کے لیے ادھر ادھر کے سفر کیاکرتے تھے۔اسی زمانے میں انہیں شاعری کاچسکا لگا یوں توانہوں نے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا لیکن خط وکتابت کے ذریعہ وہ اس زمانے کے عظیم استاد مرزا داغ دہلوی سے خط وکتابت کے ذریعہ اصلاح لیاکرتے تھے۔ 

جگر کی شاعری نے عوام کے دلوں میں اس طرح گھر کرلیاتھا کہ پھر انہوں نے شاعری کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ ان کے تین شعر ی مجموعے ‘داغ جگر’،‘شعلہٴ طور’  اور ‘آتش گل’ شائع ہوئے۔ ان تینوں شعری مجموعوں نے ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ حالانکہ ناقدین عام طور پر مشاعروں کے شعرا کو منہ نہیں لگاتے تھے لیکن جگر کی شاعری صرف مشاعرے کی شاعری نہیں تھی ان کے یہاں جو خیالات ملتے ہیں اور اس میں جو بلندی ہے اسے ناقدین نظرانداز نہیں کرسکتے تھے۔ بھارت کا سب سے اہم ادبی انعام بھی آتش گل پر ہی دیاگیاتھا جو کہ اس ادارے کے قیام کے بعد پہلا انعام تھا۔ 
کسی ادارے کا انعام ملنا تو اور بات ہے انہیں سب سے بڑایہ انعام ملاتھا کہ عوام ان کی شاعری کو سننے کے لیے جوق درجوق آتے تھے اورکلام سن کر سرد ھنتے تھے۔ ان کے اشعار گلی گلی میں پڑھے جاتے تھے۔ کچھ غزلیں تو بے حد مشہور تھیں۔ان ہی میں یہ غزل ہے:
 
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے 
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے 
یہ عشق نہیں آساں اتناہی سمجھ لیجے 
اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے
آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگر لیکن
بندھ جائے سوموتی ہے رہ جائے سو دانا ہے

جگر مرادآبادی خالص تغزل کے شاعر ہیں اور ان کے یہاں جوشیفتگی اور وارفتگی ہے اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔اسی لیے انہیں کبھی شہنشاہِ تغزل اور کبھی رئیس المتغز لین کہاگیا اور بلا شبہ وہ اس کے مستحق تھے۔ جگرنے صاف ستھری اور سلیس زبان کا استعمال تو کیا ہی ہے ساتھ ساتھ اپنی غزل میں کلاسکیا محاورات اوراستعارات کابھی استعمال کیا ہے۔ محبت کے موضوع کو انہوں نے مختلف زاو یو ں سے دیکھا اور پرکھا ہے اور اس موضوع پر تازہ کار اشعار کہے ہیں اور یہی جگر کا مخصوص انداز ہے:

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد 
اب مجھ کونہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

جز عشق معتبر یہ کسی کو خبر نہیں 
 ایسا بھی حسن ہے جوبقید نظر نہیں 

آج نہ جانے راز یہ کیا ہے 
ہجر کی رات اور اتنی روشن 
تجھ سا حسیں اورخون محبت 
وہم ہے شاید سرخی دامن 

ان کاجو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میراپیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے 

جگر کے یہاں اشعار میں غنایت ہے کیونکہ وہ خود بہت مترنم شاعر تھے اور انہوں نے اپنی تمام غزلوں میں اسے برتا ہے۔ لیکن گرد وپیش کے حالات سے بھی کبھی بے خبر نہیں رہے۔ انہوں نے حالات حاضرہ کواپنے اشعار میں سمیٹا ہے:

آدمی آدمی سے ملتا ہے 
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے 
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
 گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز 
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جارہا ہوں میں
کانٹوں کابھی حق ہے کچھ آخر 
کون چھڑائے اپنادامن 

جگر مراد آبادی نے قحطِ بنگال پر جو نظم کہی تھی۔ وہ ا س دور کی بہت ہی موثر نظم مانی جاتی ہے:
 
انسان کے ہوتے ہوئے انسان کا یہ حشر 
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں 

جگر مراد آبادی کوفلمی دنیا سے کئی بار پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے اس چمک دمک والی دنیا میں جانے سے انکار کردیا۔ البتہ انہوں نے اپنے دو شاگردوں شکیل بدایونی اور مجروح سلطان پوری کو ضرور فلمی دنیا میں بھیج دیاتھا اوران دونوں نے نہ صرف وہاں کافی دولت کمائی بلکہ نا مو ری بھی حاصل کی۔ ان کا انتقال نوستمبر 1960 ء میں ہوا۔ 

جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر 
عمر بھرکی بے قراری کو قرار آہی گیا

جگر کے بعد مشاعروں میں ان کی کمی بے حد محسوس کی جاتی رہی کیونکہ وہ خود ہی کہہ گئے تھے:

جان کر منجملہٴ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

Wednesday, March 2, 2011

ابراہیم رضوی۔لندن - قیصرتمکین گذشتہ نصف صدی سے برابر افسانوی دنیا میں لوگوں کو چونکاتے اور اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔

2011/2/28 Rashid Ashraf <zest70pk@gmail.com>
قیصرتمکین گذشتہ نصف صدی سے برابر افسانوی دنیا میں لوگوں کو چونکاتے اور
اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔
ابراہیم رضوی۔لندن



قیصرتمکین گذشتہ نصف صدی سے برابر افسانوی دنیا میں لوگوں کو چونکاتے اور
اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔ ایک ایسے دور میں جب ناولوں کی بھر مار تھی اور
ادب میںجمود کے نعرے لگ رہے تھے وہ مستقل لکھتے رہے۔ان کی ۳۱ کتابیں شائع
ہوچکی ہیں ان میں افسانوں کے مجموعے تنقیدی مضامین اور دیگر موضوعات پر
مضامین شامل ہیں ان کا پہلامجموعہ ”جگ ہنسائی“ ان کے زمانہ طالب علمی میں
۸۵۹۱ءمیںادارہ فروغ اردو لکھنوکی طرف سے شائع ہوا تھا اس پر یوپی حکومت
نے نقد انعام بھی دیا تھا۔صف اول کے افسانہ نگاروں میں بعض سیاسی وجوہ سے
اور خاص طور پر ترقی پسند تحریک کے ایک خاص دور انتہا پسندی کی بنا پر
کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی اور خواجہ احمد عباس کے نام اتنے نمایاں
رہے کہ بہت سے لوگ اکثر بھول جاتے ہیں کہ اصل میں جدید افسانے میں منٹو،
احمد ندیم قاسمی اور حیات اللہ انصاری زیادہ بڑے فنکار ہیں اور زندگی کے
مشاہدات اور روز مرہ کی زندگی کے بعض غیر مقبول پہلووں پر ان تینوں کی
نگاہ جتنی تیز اور موثر ہے وہ احمدعباس اور کرشن چندر کی گرفت سے بہت دور
ہے۔ اس بارے میں قیصر تمکین منٹو سے سب زسے زیادہ متاثر تھے۔ ان کے جنسی
موضوعات سے نہیں بلکہ فن کی شدت اور مشاہدے کی بے پناہ سفاکی کی وجہ سے
۔قیصرکا کہنا تھا کہ ”منٹو پہلا فرانسیسی ادیب ہے جو اردو میں پیداہوا۔“

فن افسانہ نگاری میں بھی لکھنو کا بڑا نمایاں حصہ رہا ہے۔ پریم چند کو
لکھنو اسکول کے تھے ہی (ترقی پسند مصنفین کی اساسی کانفرنس منعقدہ لکھنو
۶۳۹۱ءکی صدارت پریم چند ہی نے کی تھی)ان کے بعد اعظم کریوی پنڈت سدرشن،
محمد علی ردولوی علی عباس حسینی ،حیات اللہ انصاری، قرة العین حیدر اور
شوکت علی صدیقی کے نام آتے ہیں۔ ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور نے بھی اپنی
زندگی کا بڑا حصہ لکھنو میں ہی گزارا۔ خواجہ احمد عباس اپنے کو کسی خاص
دبستان سے وابستہ نہیں کرتے۔ مگر زمانہ طالب علمی میں علی گڑھ کے دوران
قیام میںوہ بھی زیادہ وقت لکھنوی ادیبوں اور تحریکوں کی معیت میں گزارتے
تھے۔ ان کے علاوہ بہت سے لوگ تھے جو لکھنوکی محفلوں میں ہی سرگرم تگ و
تاز رہے تھے ان میں نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری اور اکبر الہ آبادی
کے نام آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہی کیا۔
بعد کی نسل میں لکھنو اسکول سے متعلق کچھ بہت ہی نمایاں نام ہیں مثلاً
رام لعل، قیصر تمکین، قاضی عبد الستار اور رتن سنگھ۔

رام لعل اور رتن سنگھ لکھنو میںہی سکونت پذیر رہے۔ قاضی عبد الستار علی
گڑھ جابسے۔ قیصر تمکین نے شروع زندگی لکھنو ہی میں گزاری اور تعلیم مکمل
کرنے کے بعد دہلی چلے گئے جہاں سے وہ ۵۶۹۱ءمیں ترک وطن کرکے برطانیہ
آگئے۔ اس لئے وہ اپنے کو کسی طرح لکھنو اسکول سے وابستہ کئے جانے کے حامی
نہیں تھے۔ قائل وہ اردو دنیا میں صرف منٹو ،عصمت چغتائی اور شفیق الرحمن
کے تھے اور انہیں اپنا پیش رو اور معنوی گرو مانتے تھے۔ مگر ان کے کہنے
سے کیا ہوتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ چالیس پینتالیس سال پہلے لکھنو چھوڑنے
کے بعدبھی وہ غیرشعوری طور پر لکھنوی ہی رہے۔ اگر ان کے شعور پر منٹو،
احمد ندیم قاسمی اور عصمت چغتائی کے اثرات ہیں تو غیر ارادی طور پر ان پر
پریم چند سے لے کر شوکت صدیقی تک کا اثرنظر آتا ہے مگر یہ بات وہ اتنے
واضح طور پر ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔

میں نے دبستان لکھنو کا ذکر محض کسی بے تکی تخصیص یا درجہ بندی کے لئے
نہیں کیا ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ لکھنو کے تہذیبی و لسانی اثرات اور منٹو
اور قاسمی کی صداقت تسلیم کرتے ہوئے وہ اردو افسانے میں ایک ایسا امتزاج
پیش کرتے ہیں جو خود قرة العین حیدر کے یہاں بھی اتنا واضح اور بے لوچ
نہیں ہے۔ ان کی اس خوبی پر جلا ہوئی ہے ان کے وسیع مطالعے سے جو انہوںنے
روسی، فرانسیسی اور چینی افسانوی ادب سے واقفیت کے سلسلے میں بہت طالب
علمانہ طور پر کیا ہے۔ ان کے موضوعات کاتنوع ان کی تکنیکی اپج ان کی زبان
کی لطافت اور پھر ان کے مطالعے اور مشاہدے کی رنگ آمیزی نے ان کوایسی
ممتاز اور منفرد جگہ عطا کی ہے جو ان کو لکھنو اسکول سے ہی نہیں بلکہ
تمام اردو بزم افسانہ نگاری سے ممتاز کرتی ہے۔

ادب کا ذوق قیصر تمکین کو ورثہ میں ملا ہے۔ ان کے گھر میںپچھلی تین، چار
پشتوں سے ادب اور شاعری کا ذوق چلاآرہا ہے ان کے والد مشیر احمد علوی
ناظر کاکوروی ایک ممتاز ادیب اور نقاد تھے ان کے دادا امیر احمد علوی نے
انیس، بہادر شاہ ظفر، اور مثنویات پر جو تحقیقی کام کیا ہے اس سے آج بھی
لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ حسان الہند محسن کاکوروی جن کا نعتیہ قصیدہ، ”سمت
کاشی سے چلا جانب متھرا بادل“ تمام ہندوستان میں مشہور تھا امیر احمد
علوی کے نانا تھے۔

قیصر کے بڑے بھائی حسین مشیر علوی ایک ممتاز شاعر تھے قیصر کے چھوٹے
بھائی احمد ابراہیم علوی اتر پردیش کے ایک بڑے اور موقر اخبار ”آگ“ کے
مدیر اعلیٰ ہیں۔

قیصر نے بچپن سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں ان کی پہلی کہانی
۹۴۹۱ءمیں لاہور کے مشہور رسالے عالم گیر میں شائع ہوئی تھی اس وقت ان کی
عمر زیادہ سے زیادہ بارہ تیرہ سال کی ہوگی۔ بہت سے افسانے انہوںنے فرضی
ناموں سے لکھ کو مختلف رسالوں کو بھیجیں اس ڈر سے کہیں والدین کی ڈانٹ
پھٹکار نہ سننا پڑے۔

یہ کہنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ قیصر بہتر ادیب اور افسانہ نگار ہیں
یا بہتر صحافی ہیں۔ صحافت بطور پیشہ انہوں نے ۴۱ سال کی عمر سے اختیار کی
ابتدا اردو اخباروں سے کی اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے لندن کے ٹائمز
کے شعبہ ادارت تک پہونچ گئے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جو کسی ایشیائی کو شاذ و
نادر ہی ملتا ہے۔لیکن پھر بھی میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صحافی کی
بہ نسبت ادیب غالب رہتا ہے۔ اس کا ثبوت ان کی کتاب ”خبر گیر“ ہے۔ بظاہر
تو وہ ایک صحافی کی کہانی دنیائے صحافت کے شب و روز اور صحافیوں کی
مصروفیات اور زندگی کے پیچ و خم کی داستان ہے لیکن در اصل اسلوب بیان کی
شگفتگی ، زبان پر عبور اور ان کے عمیق مشاہدے نے ”خبر گیر“ کو سوانح سے
بلند تر کرکے ادبی رنگ دے دیا ہے۔ قیصر تمکین بہت بے باکی اور ایمانداری
سے اپنی بات کہنے کے عادی ہیں۔ اپنی یا اپنے خاندانی کی کمزوریوں کا ذکر
کرتے ہوئے انہیں کوئی حجاب نہیں آتا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ”والد کی ماہانہ
تنخواہ ایک چپراسی کی تنخواہ سے بھی کم تھی۔ اس پر مشکل یہ کہ وہ رشوت
لینے کے قائل نہیں تھے۔ اور ان کاپورا محکمہ رشوت پر چلتا تھا۔ ان کا
کہنا یہ تھا کہ حلال کی کمائی خواہ کتنی قلیل کیوں نہ ہو اس میں بڑی برکت
ہوتی ہے۔(ہم نے اپنے گھر میںکبھی کوئی برکت نہیں دیکھی) ایک بار عید کے
دن ہمارے گھر میں چولہا تک نہ جل سکا۔“

اپنے منہ میاں مٹھو بننا تو بہت آسان ہے مگر اس طرح کی سچائی کو زیر
تحریر لانا بڑے ظرف کی بات ہے۔

مجھے معلوم ہے قیصر فرضی ناموں سے مختلف اردو انگریزی اخباروں میں لکھتے
رہتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے پہلے مجموعہ ”جگ ہنسائی“ کی
اشاعت پر ناشر نے ان کو سو روپئے دیے تھے جس سے انہوں نے ایک سوٹ سلوایا
تھا یہ ۹۵۹۱ءکی بات ہے اس کتاب پر اتر پردیش حکومت نے ۰۵۲ روپئے کا نقد
انعام دیاتواس سے انہوں نے ایک کل ہند مقابلے کے امتحان کی فیس جمع کی۔
(یہ دوسری بات ہے کہ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے ایک مہنے
میں ملازمت چھوڑ دی اور اپنے عم محترم سے جن کی صاحبزادی سے قیصر کی شادی
ہوئی تھی یہ جھوٹ بولا کہ وہ امتحان میں فیل ہوگئے ہیں) بعد میں ان کے
چچا کو جب اصل بات معلوم ہوئی تو بیٹی کی قسمت اور داماد کی حماقت پر سر
پیٹ کر چپ ہوگئے۔ ویسے بھی اچھی اچھی ملازمتیں حاصل کرنا اور پھر بور
ہوکر استعفیٰ دیدینا ان کا مشغلہ تھا۔ٹائمز میں پورے چھ سال تک کام کرنے
کے بعد یونین کے سلسلے میں ایک اصولی اختلاف کی بناءپر استعفیٰ دے کر چلے
آئے۔

قیصر تمکین انتہائی منکسر المزاج ، سادہ طبیعت اور پر خلوص انسان تھے
نمود و نمائش سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ وہ ستائش کی تمنا یا صلہ کی پر وا
کئے بغیر اپنا کام کرتے تھے۔ ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ زہر ہلاہل کو قند
نہیں کہہ سکتے تھے۔ کسی انجمن تحسین باہمی کے ممبر نہیں تھے۔ شاید اسی
لئے انہیں وہ سستی شہرت حاصل نہیں ہوئی جسے پاکر اکثر لوگ اپنے کو عظیم
سمجھنے لگتے ہیں۔

قیصر اپنے افسانوں میں ہمیشہ کسی نہ کسی مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں
لیکن جو بات کہنا ہوتی ہے وہ اس طرح کہانی میں سمو دیتے ہیں کہ بعض اوقات
پڑھنے والے ان کے مقصد تک نہیں پہونچ پاتے۔ اس سلسلے میں دلچسپ مثال ان
کی تصنیف ”خبر گیر“ ہے۔ جس میں انہوں نے اس بات کا مذاق اڑایا ہے کہ صرف
انگریزی ذریعہ تعلیم پانے والے اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے ہی قابل اور
انگریزی داں ہوتے ہیں یا مغرب میں ہر ٹام، ڈک اور ہیری ذہانت اور دانش کا
پیکر ہوتا ہے۔ بعض لوگ بی بی سی اور ”ٹائمز“ جیسے اخبار کو صحیفہ ¿
آسمانی سمجھتے ہیں کہ مستند ہے میرا فرمایاہوا۔ قیصر نے جس طرح ”ٹائمز“
کا مذاق اڑایا ہے وہ تیسری دنیا کو چھوڑئے خود یورپ اور امریکہ کے
دانشوروں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ”خبر گیر“ کے ان دو مقاصد تک عام طور پر
کسی کی نظر نہیں گئی اور ڈاکٹر محمد حسن اور حنیف فوق جیسے لوگ بھی اس کو
خود نوشت سوانح عمری سمجھے۔ تو کہنا یہ تھا کہ قیصر کی کہانیوں میں جو
بات کہی جاتی ہے وہ اکثر پنہاں رہتی ہے۔ بقول قیصر بات اس طرح کہو کہ پند
و نصیحت نہ لگے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں کرشن چندر یا احمد عباس کی طرح
وعظ خوانی یا نعرہ بازی کرنا چاہوں گا تو کہانی لکھنے کی بجائے مضمون
لکھوں گا۔ اگر واجدہ تبسم کی طرح بھونڈے طریقے پر کسی جمی جمائی تہذیب کی
بخیہ ادھیڑنے کی کوشش کرنا ہوگی تو طنزیہ و استہزائیہ انشائیے لکھوں گا۔
کہانی لکھنا کیا ضروری ہے۔ موپاساں کی طرح خوش اسلوبی سے حقیقت کی جھلک
دکھانا یا منٹو کی طرح کسی مسئلے پر ”سرچ لائٹ“ پھینک کر توجہ دلانا ہی
میرا مقصد ہے۔ میں واعظ نہیں ہوں۔ سیاسی لیڈر نہیں ہوں یا کسی اسکول یا
کالج میں مدرس نہیں ہوں، الف لیلیٰ کی شہر زاد ایک ہزارراتوں تک کہانیاں
اور داستانیںسناتی رہتی ہے اور پھر ہم خود بخود اس نتیجے پر پہونچ جاتے
ہیں جو شہر زاد کا اصل مقصد تھا۔

قیصر کی اکثر کہانیوں میں بعض کردار ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ ہم کو شبہ
ہوتا ہے کہ خود ان کا نقطہ نظر یہی ہے۔ پھر اس کے بعد ہی وہ ایسی متضاد
اور مختلف باتیں بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم کو ان کی ”ناوابستگی“ کا احساس
ہوجاتا ہے مثلاً”میگھ دوت“ نامی کہانی میں ایک کردار کہتا ہے:

”تنہائی سے مفر کہاں؟ نئے نئے ملکوں میں گھومئے۔ نئے نئے شہر دیکھئے، نئے
نئے دوستوں سے ملئے اور نئے نئے تجربات سے دو چار ہوئیے۔ مگران سب باتوں
کے نتیجے میں ملتا کیا ہے؟ نئی نئی تنہائیاں۔یا ”تندور“نامی کہانی میں
ایک ناکام ترقی پسند شاعر اپنے سوا ساری دنیاکو الزام دیتے ہوئے کہتا ہے۔

”اردو میں ترقی پسندی کی تحریک اصل میں ایک شیعہ تحریک تھی اور مجھ کو
ہمیشہ سنی ہونے کی بنا پر نظر انداز کیا جاتا رہا۔“(ہم یہاں اس طنز لطیف
پر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے).

افتخار عارف

افتخار عارف 21 مارچ، 1943ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا ۔ کراچی یونیورسٹی سے ایم کیا۔ اپنی علمی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں بحیثیت نیوز کاسٹر کیا۔ پھر پی ٹی وی سے منسلک ہوگئے۔ اس دور میں ان کا پروگرام کسوٹی بہت زیادہ مقبول ہوا۔ بی سی سی آئی بینک کے تعاون سے چلنے والے ادارے ’’اردو مرکز‘‘ کو جوائن کرنے کے بعد آپ انگلینڈ تشریف لے گئے۔ انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین بنے۔ اکیڈیمی ادبیات کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔

فیض احمد فیض نے آج سے تیس برس پہلے اُس وقت کے ایک اُبھرتے ہوئے
شاعر کے بارے میں کہا تھا ’افتخار عارف کے کلام میں میرو مِیرزا سے لے کر فراق و راشد تک سبھی کی جھلکیاں موجود ہیں لیکن آپ نے اُن بزرگوں سے استفادہ کیا ہے، کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی بلکہ لَے اور آہنگ کی طرح کچھ ایسا ہی اجتہاد لُغت اور محاورے میں بھی کیا ہے۔ موضوع کی رعایت سے کہیں کلاسیکی اور ادبی زبان کے شِکوہ سے کام لیا ہے تو کہیں روزمرّہ کی بولی ٹھولی کو شعریت سے پیوند کیا ہے۔ حٰتی کہ غزل جیسی کافر صنف میں بھی کچھ انفرادی بڑھت کی ہے۔

فیض نے یہ بات اُس وقت کہی تھی جب افتخار عارف کا نام صرف مشاعروں اور ادبی جریدوں کی وساطت سے ہم تک پہنچا تھا اور ان کا اوّلین مجموعہء کلام ابھی مرتب ہو رہا تھا لیکن فیض نے اُن کے شعری خمیر کو پہچان لیا تھا اور جو بُنیادی خصوصیات اِس ضمن میں بیان کی تھیں وہ آنے والے برسوں میں واضح سے واضح تر ہوتی چلی گئیں۔

آج جب افتخار عارف کے تین مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر آچکے ہیں ہمیں فرموداتِ فیض کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ فیض صاحب نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا تھا ’افتخار عارف بڑے ہو کر کیا کریں گے یا نہیں کریں گے یہ موسیقی کی اصطلاح میں ان کے ریاض پر ہے، ۔۔۔ وہ کچھ اور نہ بھی کریں تو یہ کتاب (مہرِدونیم) جدید ادب میں انھیں ایک معتبر مقام دلوانے کے لئے کافی ہوگی‘۔

آج فیض صاحب کی روح یہ دیکھ کر یقیناً مسرور و مطمئن ہوگی کہ اُن کی خواہش اور ہدایت کے مطابق نوجوان شاعر نے ریاض کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور جِس معتبر مقام کی پیش گوئی انھوں نے کی تھی وہ خود چل کر شاعر کے قدموں میں آگیا ہے۔

افتخار عارف کی شاعری پر گذشتہ تیس برس کے دوران بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ چونکہ تراجم کے ذریعے عارف کا کلام امریکہ، برطانیہ، روس اور جرمنی وغیرہ میں بھی متعارف ہو چکا ہے اس لئے انگریزی، روسی اور جرمن میں بھی اس کلام پر تبصرے ہوئے ہیں۔


افتخار عارف  اپنی نسل کے شعراء میں سنجیدہ ترین شاعر ہیں۔ وہ اپنے مواد اور فن دونوں میں ایک ایسی پختگی کا اظہار کرتے ہیں جو دوسروں میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ وہ عام شعراءکی طرح تجربہ کے کسی جزوی اظہار پر قناعت نہیں کرتے بلکہ اپنا پورا تجربہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ اسے سمیٹتے ہیں۔

اپنے مواد پر ان کی گرفت حیرت انگیز حد تک مضبوط ہے اور یہ سب باتیں مل کر ظاہر کرتی ہیں کہ افتخار عارف کی شاعری ایک ایسے شخص کی شاعری ہے جو سوچنا ، محسوس کرنا اور بولنا جانتا ہے جب کہ اس کے ہمعصروں میں بیشتر کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ سوچ نہیں سکتے یا وہ محسوس نہیں کر سکتے اورسوچ اور احساس سے کام لے سکتے ہیں تو بولنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ان کی ان خصوصیات کی بناء پر جب میں ان کے کلام کو ہم دیکھتے ہیں تو یہ احساس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ افتخار عارف کی آواز جدید اردو شاعری کی ایک بہت زندہ اور توانا آواز ہے۔ ایک ایسی آواز جو ہمارے دل و دماغ دونوں کو بیک وقت اپنی طرف کھینچتی ہے اور ہمیں ایک ایسی آسودگی بخشتی ہے جو عارف کے سوا شاید ہی کسی ایک آدھ شاعر میں مل سکے۔

شعری مجموعے

بارہواں کھلاڑی
مہر دو نیم
حرفِ باریاب

اصنافِ شعر

اصنافِ شعر 
 
یعقوب آسی

اردو میں رائج اصنافِ شعر کو دو حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے: ہیئت کے اعتبار سے اور نفسِ مضمون کے اعتبار سے۔ ہیئت کے حوالے سے اب تک متعارف ہونے والی اصناف میں گیت، دوہا، کافی، ماہیا، ثلاثی، ہائیکو، رباعی، مخمس، مسدس، ترکیب بند، قطعہ بند، مسبع، معریٰ نظم، آزاد نظم، غنائیہ اور غزل نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ نفسِ مضمون کے حوالے سے ان اصناف میں حمد، نعت، منقبت، قصیدہ، ترانہ، ہجو، شہر آشوب، خمریات، ہزل (یعنی اینٹی غزل)، غزل، سہرا، مرثیہ، مناجات، بہاریہ اور واسوخت جانی پہچانی صورتیں ہیں۔ نام نہاد ”نثری نظم“ ہمارے نکتہ نظر سے نظم کی نہیں بلکہ نثر کی ایک صورت ہے اور اس کے لئے بہت مناسب نام ”نثرِ لطیف“ پہلے سے موجود ہے۔
اس کتاب کا موضوع نفسِ مضمون نہیں ہے اور ہیئت کے اعتبار سے بھی ہم مختلف اصناف کی تفصیل میں جائے بغیر شعر کے اوزان کا مطالعہ کریں گے۔ تاہم موزوں ہو گا کہ نظم کے ہیئتی گروہ میں سے چیدہ چیدہ اصناف پر قدرے تفصیل سے بات ہو جائے۔
غزل: غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ابتداً قصیدہ کا حصہ تھی۔ قصیدہ عربی کی ایک قدیم اور معروف صنف ہے جس میں شاعر اپنے قبائلی سراداروں اور سورما

¶ں اور قومی مشاہیر کی زندگی میں ان کی تعریف و توصیف (جس میں خوشامد بھی شامل ہے) بڑے جاندار لفظوں میں کیا کرتے تھے۔ قصیدہ کے لئے زورِ بیان، با وقار انداز اور اعلیٰ فنی مہارت ضروری ہے۔ قصیدہ کو عام طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تشبیب میں شاعر اپنے خیالات کی جولانی دکھاتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو زورِ بیان پر صرف کرتا ہے۔ تشبیب سے اصل مضمون کی طرف رجوع کا نام گریز بھی ہے۔ یہاں پیرایہ اظہار میں نفاست ہوتی ہے اور گریز کے لئے حسنِ تعلیل سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد مدح ہوتی ہے۔ شاعر اپنے ممدوح کے لئے بلند خیالی کا اظہار کرتا ہے اور اس کی توصیف کرتا ہے۔ آخر میں وہ ممدوح کو دعا دیتا ہے یا اس کے سامنے اپنی طلب پیش کرتا ہے۔ بعض قصائد میںدعا اور طلب ساتھ ساتھ ملتی ہیں۔ 
تشبیب میں پائے جانے والے زورِ بیان، ندرتِ خیال، موسیقیت، رومانی اور نازک موضوعات اور حسنِ بیان میں خود اتنی جان تھی کہ تشبیب کے اشعار یا ابیات کو قصیدہ سے الگ کر کے بھی پڑھا یا سنا جائے تو ان کا اپنا ایک تاثر بنتا تھا۔ اس خوبی کی بنا پر اس کی ایک آزاد حیثیت ایک الگ صنف ِ سخن کے طور پر معروف ہو گئی جسے ”غزل“ کہا گیا۔ غزل کی تعریف مختلف ادوار میں مختلف انداز میں کی جاتی رہی ہے۔ لفظ ’غزل‘ کے معنی کے لحاظ سے اور اس کے موضوعات کے حوالے سے ”غزل“ کو جو کچھ کہا جاتا رہا ، اس تفصیل کا اجمال کچھ اس طرح ہے:
۱۔ عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی سی باتیں کرنا، جسے ریختی بھی کہا جاتا ہے۔
۲۔ ہرن (غزال) جب زخم خوردہ ہو تو جو آواز وہ شدتِ خوف اور شدتِ درد کے عالم میں نکالتا ہے اسے بھی غزل کہتے ہیں۔ اس حوالے سے درد و الم کے بیان کو غزل کا موضوع کہا جاتا ہے۔
۳۔ محبوب کا شکوہ، اس کے لئے اپنے جذبے اور وارفتگی کا بیان، اس کی بے اعتنائی کا احوال غزل کا محبوب موضوع رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ محبوب حقیقی بھی ہو سکتا ہے، مجازی بھی، خیالی بھی اور بعض شعرا کے ہاں اپنی ذات محبوب کا درجہ رکھتی ہے۔
۴۔ دوستوں اور زمانہ کی شکایت، اپنے ذاتی، اجتماعی یا گروہی رنج و الم کا بیان۔
۵۔ اپنے گرد و پیش کے مسائل کا بیان اور ذاتی تجربات اور مشاہدات کا قصہ، ارادوں کا اظہار اور ان کے ٹوٹنے پر دکھ کی کیفیت۔
۶۔ گل و بلبل، جام و مینا، لب و عارض کا بیان۔ خیال آفرینی، معنی آفرینی اور حسنِ بیان۔
۷۔ بقول پروفیسر رشید احمد صدیقی: ”ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے رنگ و آہنگ، سمت و رفتار اور وزن اور وقار ملا ہے“۔ فراق گورکھپوری کے بقول ”اردو غزل کا عاشق اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے نہیں اپنی تہذیب کی آنکھوں سے دیکھتا ہے“۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا ہے:
غزل کے روپ میں تہذیب گا رہی ہے ندیم
مرا کمال مرے فن کے اس رچا

¶ میں تھا
آج کی غزل کا میدان بہت وسیع ہے۔ دنیا جہان کے موضوعات غزل میں سما گئے ہیں۔ سنجیدگی، متانت اور ماتمی کیفیات کے ساتھ ساتھ طنز اور ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی آج کی غزل میں پائی جاتی ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ تصوف، عقائد اور مابعدالطبیعیاتی مسائل بھی آج کی غزل کا اہم موضوع ہیں۔ موضوعاتِ غزل میں جو کچھ بھی شامل ہو سکے ہونا چاہئے تاہم ایک بنیادی شرط پر کہ کسی صورتِ حال یا واقعے یا فکر کو محض بیان کر دینے کا نام غزل نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ شاعر اپنا احساس اور تجربہ اپنے اندازِ اظہار میں شامل کرے اور قاری کو یہ باور کرا سکے کہ اس نے کس حد تک کسی صورتِ حال کا اثر لیا ہے۔ اگر قاری (یا سامع) بھی شاعر کے تجربے کو محسوس کر سکے تو یہ غزل کی ایک اور خوبی ہو گی۔ غزل کے ہر شعر کا نفسِ مضمون الگ ہو سکتا ہے اور مجموعی طور پر غزل کا ایک تاثر بھی بن سکتا ہے۔ بعض نقاد ریزہ خیالی کو غزل کا حسن قرار دیتے ہیں اور بعض وحدتِ تاثر کو۔
ہیئت کے اعتبار سے غزل میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ غزل مطلع سے شروع ہوتی ہے۔ مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہم ردیف ہوتے ہیں۔ پوری غزل ایک بحر میں ہوتی ہے۔ ہر شعر کا مصرعِ ثانی مطلع کے ساتھ ہم قافیہ ہم ردیف ہوتا ہے۔ غزل کے آخری شعر کو جس میں شاعر اپنا نام یا تخلص لاتا ہے، مقطع کہتے ہیں۔ مصرعِ اول کسی بھی شعر کا پہلا مصرع ہوتا ہے جبکہ مصرعِ اولیٰ مطلع کا پہلا مصرع ہوتا ہے۔ غزل میں اشعار کی تعداد پر کوئی قید نہیں۔ بالعموم چار سے پندرہ اشعار تک کی غزلیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ غالب کے ہاں تین شعر تک ملتے ہیں، دوسری طرف مشاہیر کے ہاں چالیس چالیس اشعار کی غزل بھی ملتی ہے اور دو غزلے ، سہ غزلے اور چہار غزلے بھی۔ غزل کے اندر ایک سے زائد اشعار مسلسل مضمون کے آ جائیں تو ان کو قطعہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے ”آزاد غزل“ کا نام نہاد ’تجربہ‘ سامنے آیا ہے، جس میں کچھ ہم وزن ابیات کو اکٹھا لکھ دیا جاتا ہے اور اسے ”غزل“ کا نام دے دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ مستحسن نہیں۔
مرثیہ اور سہرا: مرثیے کے لئے کسی خاص ہیئت کی پابندی ضرور نہیں۔ میر انیس اور میرزا دبیر نے مسدس میں مراثی لکھے ہیں۔ہمارے ہاں” مرثیہ“ کی اصطلاح اس نظم کے لئے مختص ہو گئی ہے جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بنیادی موضوع ہو اور سانحہ کربلا کے حوالے سے رنج و غم کا اظہار کیا جائے۔ حقیقتاً مرثیہ ایسا قصیدہ ہے جو کسی مرحوم شخصیت کے لئے لکھا جائے۔ اس میں درد و الم اور ناپائیداری حیات کا اظہار پوری قوت کے ساتھ آتا ہے اور اس طرح مرثیہ میں ایک عمومی ماتمی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ انیس اور دبیر مرثیہ نگاری میں مستند مقام رکھتے ہیں۔ اقبال کی مشہور نظم ”والدہ مرحومہ کی یاد میں“ مرثیہ کی ایک انوکھی مثال ہے۔ اس نظم کی قابلِ ذکر خوبی یہ ہے کہ درد و الم اور ناپائیداری حیات کا اظہار اپنی پوری قوت کے ساتھ واقع ہونے کے باوجود ماتمی اور قنوطی کیفیت کی بجائے رجائیت لئے ہوئے ہے۔ اسے پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ مر جانا کوئی سانحہ نہیں بلکہ فطری عمل کا ایک حصہ ہے اور یہ کہ موت کا وجود منطقی طور پر بھی بہت ضروری ہے۔ 
سہرا برصغیر پاک و ہند کی سماجی زندگی کا ایک بڑا مظہر ہے۔ سہرا کہنے کی روایت اردو ادب سے باہر نہیں ملتی۔ یہ روایتاً بادشاہوں کی تاج پوشی، شادی، علالت سے صحت یابی، ولی عہد کی نامزدگی، شاہی تہوار، نرینہ اولاد کی ’وِدھائی‘ یعنی مبارک باد اور تہنیت وغیرہ کے حوالے سے کہی جانے والی نظم ہے۔ کسی دوست، بھائی کی شادی، کسی کی سالگرہ کے موقع پر سہرا کہنے کا رواج زیادہ پرانا نہیں۔ سہرا بنیادی طور پر درباری نوعیت کی شاعری ہے جس کا مضمون موقع کی مناسبت سے ہوتا ہے اور مزاج قصیدہ کے قریب قریب ہے۔ اس لئے بحر کے انتخاب میں بھی طربیہ تا

¿ثر کو ترجیح دی جاتی ہے۔
رباعی: محققین نے رباعی کو عجمی ادب کہا ہے۔ یہ چار مصرعوں کی بلا عنوان نظم ہوتی ہے جس میں ایک مضمون مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اس کا پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہم ردیف ہوتے ہیں۔ رباعی کے چوبیس اوزان مخصوص ہیںاور ایک ہی رباعی میں ان چوبیس میں سے کوئی ایک یا زائد اوزان جمع کئے جا سکتے ہیں۔ ہم نے رباعی کے لئے ایک باب مختص کیا ہے۔ قطعہ اور رباعی میں بنیادی فرق تو یہ ہے کہ قطعہ میں رباعی کے اوزان کی پابندی نہیں ہوتی تاہم قطعہ کے مصرعے جفت تعداد میں ہوتے ہیں اور جفت مصرعے، یعنی دوسرا، چوتھا، چھٹا وغیرہ ہم قافیہ ہم ردیف ہوتے ہیں۔قطعہ کو عنوان بھی دیا جا سکتا ہے اور یہ کسی غزل کے اندر بھی واقع ہو سکتا ہے۔
پابند، معرّیٰ اور آزاد نظم: پابند نظم وہ ہے جس میں کسی ایک(یا زائد ؛ جہاں ایسا ہو) وزن کی پابندی کی جائے اور ردائف و قوافی کی متعینہ ترتیب کو نبھایاجائے۔ معرّیٰ نظم میں قافیے کی پابندی نہیں ہوتی اور مصرعے طاق تعداد میں بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کی مثال اکبر الہ آبادی کے ہاں بھی ملتی ہے۔ اکبر نے اسے ”بلینک ورس، یعنی بلاقافیہ“ قرار دیا۔ قیاس غالب ہے کہ یہ صنف انگریزی سے آئی ہے۔ اس میں ردیف قافیہ کی پابندی نہ ہونے کی بدولت مضمون آفرینی قدرے آسان ہو سکتی ہے تاہم نظم نگار کو خیال رکھنا چاہئے کہ زبان کی لطافت اور حسن قائم رہے۔ معرّیٰ نظم کے تمام مصرعے ہم وزن ہوتے ہیں۔ آزاد نظم میں بحر کی مخصوص صورت بھی قائم نہیں رہتی، اور نہ ہی مصرعوں کی ساخت، بلکہ وہاں سطریں بن جاتی ہیں۔ ہر سطر کی زخامت مختلف ہو سکتی ہے تاہم نظم میں ایک رکن یا زائد ارکان کا مجموعہ مکرر آتا ہے۔ یہ صنف آج کل بہت مقبول ہے۔ اب تو نظم کی سب صورتوں کوخواہ و ہ پابند ہوں، آزاد ہوں یا معرّیٰ، بلا تفریق ’نظم‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور نام نہاد ”نثری نظم“ کو بھی ان کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ ہم نثری نظم کو شاعری تسلیم نہیں کرے بلکہ نثر کی ایک صورت قرار دیتے ہیں جسے ”نثر لطیف“ بھی کہا جاتا ہے۔
ہائیکو: یہ چھوٹی بحر کے تین ہم وزن مصرعوں کی نظم ہے جس میں ایک خیال مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اس میں ردیف قافیے کی قید نہیں ہوتی (تینوں مصرعوں کے اوزان پر اختلافِ رائے پایا جاتا ہے، جس طرح اردو ماہئے کے دوسرے مصرعے پر اختلاف موجود ہے)۔ اس کے مضامین بھی ایک عرصے تک زیرِ بحث رہے اور پہلے پہل منظر نگاری تک محدود رہے۔ آج کل کہی جانے والی اردو ہائیکو میں غزل کی طرح متنوع مضامین آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ثلاثی پہلے سے موجود ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں جو ہم وزن، ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ ہائیکو کے بارے میں ایک دل چسپ غلط فہمی یہ بتائی جاتی ہے کہ جاپان والوں کے ہاں ہائیکو کی تخصیص ہیئت کے ساتھ نہیں بلکہ نفس مضمون کے ساتھ ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں اردو میں رائج ہائیکو کو ہیئت کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے اور اوزان پر ہونے والے مباحث ظاہر ہے کہ ہیئت سے تعلق رکھتے ہیں۔
ماہیا: ماہیا بنیادی طور پر پنجابی لوک شاعری کی ایک صنف ہے جس کا اصل موضوع فراق ہے،تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں دوسرے موضوعات بھی شامل ہو گئے ہیں۔ رسماً یہ دو مصرعوں میں لکھی جاتی ہے جو ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں تاہم پہلا مصرع ضخامت میں دوسرے مصرعے کا ٹھیک نصف ہوتا ہے۔ اس لئے اسے ڈیڑھ مصرعے کی صنف بھی کہا جاتا رہا ہے۔ آج کل اسے تین سطروں میں لکھا جاتا ہے۔ اردو ماہئے کی ابتدا چراغ حسن حسرت سے ہوتی ہے جب کہ بعض لوگوں نے ہمت رائے شرما کو اردو ماہئے کا بانی کہا ہے۔اس ضمن میں ایک اور اختلاف اردو ماہئے کے اوزان پر ہے۔ ماہئے پرایک تفصیلی مضمون ماہنامہ ”خط کشیدہ“ میں شامل ہے۔ 
بولی: بولی پنجابی لوک شاعری کی ایک بہت خاص چیز ہے۔ اس کی ایک مخصوص بحر ہے جس میں ایک ہی مصرعہ ہوتا ہے اور اسی میں پوری بات مکمل کرنی ہوتی ہے۔ اردو میں ’بولی‘ کہنے کے اب تک معدودے چند تجربات ہوئے جو خوش آئند ہیں۔ فی الحال یہ صنفِ شعر اردو میں عام نہیں ہوئی۔
غنائیہ: یہ صنف عربی کے وسیلے سے آئی ہے۔ اس کا تعلق قدیم غنائی لوک داستانوں سے بھی بنتا ہے۔ اوراس میں داستان کے علاوہ دیگر بے شمار موضوعات پائے جا سکتے ہیں۔ یہ صنف ”پیراگرافوں“ میں بٹی ہوتی ہے۔اور ہر پیرا گراف ایک الگ عروضی اکائی ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض غنائیوں میں نثری پیراگراف بھی پائے جاتے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے اس میں مسلسل مضامین لائے جاتے ہیں اور اس بات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے مضمون (یا داستان) کے منطقی بہاؤ¶ کے ساتھ ساتھ پیرایہ اظہار بدلتا چلا جائے۔ یوں غنائیہ میں تمثیلی انداز پیدا ہو جاتا ہے جس میں مکالموں کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ صنف تاریخی ڈراموں، واقعات اور داستانوں کے لئے بہت موزوں ہے ۔ غنائیہ کا ایک انداز قدیم انگریزی ڈراموں میں بھی دکھائی دیتا ہے جو عموماً نظم میں لکھے جاتے تھے۔
 اصنافِ شعر

Saturday, February 26, 2011

سلیم شہزاد کی شاعری

سلیم شہزاد کی شاعری
ظفر اقبال

سلیم شہزاد ہمارے سینئر اور متنوع شعراء میں شمار ہوتے ہیں جن کی تخلیقات پنجابی سے لے کر اردو، اور سرائیکی تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ “کاں بنیرے سکن” انکا پہلا پنجابی شعری مجموعہ ہے جبکہ “ماسوا” کے نام سے اردو نظموں کا مجموعہ زیور طبع سے آراستہ ہو چکا ہے اور “قسم ہے کنارے کی” کے عنوان سے اردو نظموں کا مجموعہ زیر طبع ہے ۔ “کریلی” کے نام سے سرائیکی ناول اور “کانڈھا” کے عنوان سے سرائیکی نظموں کی کتاب بھی شائع ہو چکی ہے ۔ زیر نظر کتاب سچیت کتاب گھر لاہور نے کوئی سوا دو سال پہلے چھاپی جس کی ضخامت پونے تین سو صفحات سے زیادہ ہے اور جس کی قیمت 175 روپے رکھی گئی ہے ۔
اس کتاب کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کی نظم و نثر آمنے سامنے گورمکھی اور شاہ مکھی رسم الخط سے مزئین ہے تاکہ مشرقی پنجاب میں رہنے والے شائقین بھی اس سے استفادہ کر سکیں جو شاہ مکھی سکرپٹ سے آشنا نہ ہوں ۔ کتاب کا بیحد خوبصورت سرورق ہمارے دوست ذوالفقار تابش نے بنایا ہے ، ایک بہت عمدہ شاعر ہونے کے علاوہ خطاطی اور مصوری میں انہوں نے ہمارے لیجنڈ حنیف رامے کی ہدایت کو اس طور سینے سے لگا رکھا ہے کہ انہیں حنیف رامے کی توسیع کہا جا سکتا ہے ۔ کتاب مجلد ہے اور عمدہ گٹ اپ میں شائع کی گئی ہے جبکہ پس سرورق شاعر کی رنگین تصویر اور غلام حسین راجہ، نسرین انجم بھٹی اور اظہر جاوید کی مختصر آراء شائع کی گئی جو ان کے دیباچوں سے ماخوذ ہیں ۔
جس طرح آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے ، اسی طرح کتاب بھی اپنے دیباچوں اور فلیپ کی تحریروں سے پہچانی جاتی ہے ۔ اول تو دیباچہ لکھوانا ہے ہی ایک فضول اور بے معنی کام جو میرے سمیت تقریباً سبھی کرتے ہیں جبکہ اکثر اوقات وہ خوبیاں کتاب میں ہوتی ہی نہیں جو دیباچوں اور تقریضوں میں بیان کی گئی ہوتی ہیں جو قاری کو مایوس کرنے کا سبب بنتی ہیں حالانکہ شاعر کو دیباچہ نگار کی نسبت قاری ہی پر انحصار کرنا چاہئے ۔ نیز ان فارمولا قسم کے دیباچوں کو پڑھتا بھی کوئی قسمت کا مارا ہی ہو گا کیونکہ بوجوہ انہیں زیادہ سے زیادہ ناقابل مطالعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہوتی ہے ، حالانکہ
حاجت مشاط نیست روئے دلا رام را
سلیم شہزاد کا پہلا امتیاز وہ زندہ زبان ہے جو انہوں نے اپنی نظموں میں استعمال کی ہے اور جو یقینی طور پر اربنائز ہونے سے کافی حد تک بچی ہوئی ہے اور ہمارے دیہات ہی میں پورے جوش و جذبے سے بولی جاتی ہے ، بلکہ اگر یہ بھی کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا کہ ہماری ماں بولی کو باقاعدہ دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے یعنی ایک تو وہ جو شہروں میں آ کر اپنی تاب و تواں کھو بیٹھی ہے اور لازمی طور پر خون کی کمی کا شکار ہے اور دوسری وہ جو شہر کی ہوا لگنے سے بچ گئی ہے ۔ چنانچہ شاعری بھی دو ہی طرح کی ہو رہی ہے اور جس میں یہ دونوں لہجے الگ الگ برتے جا رہے ہیں اس کتاب کی چنانچہ اصل شناخت اس کی غیر آلودہ زبان ہی ہے ۔ اگرچہ ضخامت میں اضافے کی وجہ گورمکھی سکرپٹ کا اہتمام بھی ہے تاہم ایک اور سبب یہ بھی کہ اکثر نظمیں بیحد مختصر ہیں جو کہ بجائے خود بہت اچھی بات ہے ، لیکن طرز ترتیب کی وجہ سے بھی یہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ اوپر نیچے مصرعے لکھنے سے کم از کم دو تہائی جگہ ہر صفحے پر بچائی جا سکتی تھی جہاں مصرعوں کو قوس بنا کر عموماً ہر لفظ اوپر تلے درج کیا گیا ہے ۔ کتاب کا انتساب محمد آصف خان، احمد رشید بھٹی اور علی اشرف قریشی کے نام ہے ۔
افضل راجپوت کے شعری مجموعے “ہڑھ آون تو پہلاں ” پر میں کہیں اور اظہار خیال کر چکا ہوں ۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ میری طرح افضل راجپوت کی پیدائش بھی بہاولنگر کی ہے اور وہ وہیں پر رہائش پذیر بھی ہے ، جبکہ سلیم شہزاد کی جنم بھومی کا تو علم نہیں لیکن رہائش اس کی بھی بہاول نگر ہی کی ہے جو میرا ننھیال ہے ۔ سلیم شہزاد کی نظموں میں صحیح زبان کے علاوہ گہرائی اور پیچیدگی بھی دستیاب ہے جبکہ نظریاتی طور پر اس کا قبلہ بھی بظاہر درست لگتا ہے نیز ابہام بجائے خود شاعری کا حسن ہے ۔ میری پوری اور ذاتی رائے میں شاعری کے اندر دوسری یعنی محولہ بالا خوبیوں کے علاوہ تازگی اور لطف سخن کا ہونا بھی بیحد ضروری ہوتا ہے ، اور جس کا زیادہ سے زیادہ اہتمام سلیم شہزاد کر بھی سکتے تھے کیونکہ قاری، شاعری کو اپنے علم و دانش اور آگاہی میں اضافے کے لئے نہیں بلکہ ایک ذہنی اور وجدانی آسودگی کے لئے پڑھتا ہے اس لئے شاعری اپنی دیگر بہت سی خوبیوں کے باوجود اگر لطف سخن ہی مہیا نہیں کرتی، یا اس سلسلے میں اس کا ہاتھ تنگ رہتا ہے تو شاعری کو اس پر فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ، اگرچہ
قبول خاطر و لطف سخن خدا دادست
مجھے اس کتاب میں سے جو دو نظمیں بطور خاص اچھی لگی ہیں ، ان میں سے ایک جس کا عنوان “نظم” ہے ، ملاحظہ کریں ۔
ٹھنڈے برف وجوداں اندر بندے
شل پے جاندے نیں
کدی کدی تے کوڑے رشتے
اپنے گل پے جاندے نیں
اپنیاں گنجھلاں کھولن لگیا
بہتے ول پے جاندے نیں
دوسری نظم جس کا عنوان ہے “افصل راجپوت لئی” یوں ہے
تیرے دھونے دھو نہیں سکدا
میتھوں تے ایہہ ہو نہیں سکدا
تو وی ہو کے ہاواں ڈک لے
جیوندیاں نوں میں رو نہیں سکدا
بظاہر چار مصرعوں کی یہ نظم دو صفحوں پر پھیلائی گئی ہے ، اور اسی طرح گورمکھی سکرپٹ میں بھی۔

Friday, February 4, 2011

کو ثر مظہری کا شعری تناظر

کو ثر مظہری کا شعری تناظر

عمیر منظر
شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ 

کوثرمظہری شعرو ادب کے سنجیدہ اسکالر ہیں ۔ادب کے مختلف رجحان اور میلانات پر نہ صرف لکھتے ہیں بلکہ ان کے حوالے سے ایک واضح فکر بھی رکھتے ہیں ۔انھوں نے شعرو ادب کے ثقافتی ،تہذیبی اور اقداری رویوں کو اپنی شعری تنقید کا خاص موضوع بنایا ہے ۔ان کایہ رویہ صرف لکھنے پڑھنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس پر انھیں اصرار بھی ہے ان رویوں کی بازگشت ان کی شاعری میں بھی نمایاں ہے ۔ثقافتی اور اقداری شعور کا یہی رویہ کائنات اور نظام کائنات کے حوالے سے بہت سے سوالو ں کو جنم دیتا ہے۔ جن کا بہت واضح ادراک ہمیں علامہ اقبال کی شاعری میں ملتا ہے۔یہ الگ بات یہ کہ اقبال کی شاعری ہمیں ایک جذبے اور قوت سے سرشار کرتی ہے۔ جب کہ کوثر مظہری کے یہاں یہ لَے مدھم ہے بلکہ اس کے مقابلے مایوسی اور کہیں کہیں اضمحلال کی کیفیت بہت زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے مگر وہ وقت اور زمانے سے برسرپیکار ضرورہوتی ہیں۔ان کے مجموعہ کلام ماضی کا آئندہ کے مطالعہ کی ایک جہت یہ بھی ہے۔ اس سلسلے کے چند اشعار دیکھیں۔ع
دم تخلیق آدم عابدوں کی بزم تھی لیکن
خدا بہتر سمجھتا تھا کسے شیطان کرنا تھا
جب فنا لازم ہے ہر شے میاں
کس لئے دنیا سجی ہے سوچئے
مجھے تو یاد ہی آتا نہیں ہے
کوئی لمحہ کہ جب تڑپا نہیں تھا
دنیا ہمیں معلوم ہے اوقات تمھاری
ہم اس لئے ٹھکراتے ہیں ہر بات تمہاری
حقیقی کوزہ گر ہے ایک جس کو جس طرح ڈھالے
بناتا ہے مٹاتا ہے مٹا کر پھر بناتا ہے
کیا بتاؤں کتنا شرمندہ میں
محو حیرت ہوں کہ کیوں زندہ ہوں میں
حال میرا ٹوٹ کر بکھرا ہوا
جانے کس ماضی کا آئندہ ہوں میں
ان اشعار سے خالق کائنات، کائنات اور انسان کی جو تصویر بنتی ہے اس میں انسان کی بے بسی اور دنیا کی فنا پذیری کا ابدی کا تصور واضح طور پر نظر آتا ہے۔ان مسائل سے میرو غالب اور اقبال بھی دوچار ہوئے۔میر تو انسان کی مختاری کو ایک تہمت سمجھتے تھے۔ جب کہ غالب نے اپنے مخصو ص استعجابی انداز میں صرف یہی کہا کہ ’ نہ ہوتا تو میں کیا ہوتا‘ اور علامہ اقبال تو ایک طرح سے اقدامی پوزیشن میں سوال قائم کرتے ہیں کہ ’ بتاؤ رازداں تیرا تھا یا میرا‘ جب کہ کوثر مظہری کا بیان بالکل سیدھا سادہ ہے کہ ’ خدا بہتر سمجھتا تھا کسے شیطان کرنا تھا۔ بے بسی یہاں بھی غالب ہے مگر لفظ خدا کے ذریعہ سب کچھ اسی پر ڈال دیا گیا ہے۔دوسرے شعر کا استفہام ہی جواب ہے۔اور ’ سوچےئے‘ کا تخاطب انسان چوتھا شعر اسی احساس کی اگلی منزل ہے جہاں متکلم کو دنیا کی اوقات معلوم ہے اور اسی لئے وہ اس کی ہر بات ٹھکرارہا ہے۔پانچویں شعر میں انسانی وجود کوزہ گر کے ہاتھوں ایک مٹی کا کھلونا ہے۔ جہاں وہ اس کو مٹانے اوربنانے کی طاقت اسی طرح رکھتا ہے جیسا کہ کوزہ گر۔ شعر کے پہلے مصرعہ میں کوزہ گر سے پہلے حقیقی کا استعمال اگر اور کسی طرح ہوجاتا یا اس کا کوئی متبادل لفظ اس کی جگہ آجاتا تو ممکن ہے کہ اس شعر کی معنویت مزید روشن ہوجاتی ۔
کوثر مظہری نے تلمیحات اور شعری علامتوں سے فائدہ اٹھانے کی بڑی عہدہ کوشش کی ہے۔ان کے اشعار کے مطالعہ سے اقداری اور ثقافتی رویہ سامنے آتا ہے۔نیز غیر یقینی صورت حال میں تیقین کی دولت بھی ملتی ہے۔علامہ اقبال کے بعد ہمارے یہاں ایک درمیانی عرصہ ایسا بھی گزرا ہے جب ان تلمیحات کو درکنار کردیا گیا تھا۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ تلمیحات صرف شعر کی معنوی جہات کو روشن ہی نہیں کرتی بلکہ یہ ہماری تہذیبی اور ثقافتی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ ہم سب کچھ نظر اندازکرسکتے ہیں لیکن اپنے وجود کو پرے نہیں ڈال سکتے ۔ہم جس ملک اور جہاں بودوباش کررہے ہیں اس کی فضاؤں میں ایک زمانے سے یہ ساری چیزیں موجود ہیں۔ جو کہیں نہ کہیں ہمیں ابھارتی ہیں اور نئے امکان کی بشارت بھی دیتی ہیں۔ع
اذاں تو ہوتی ہے صحرا میں آج بھی لیکن
یہ دیکھنا ہے کہ روح بلال ہے کہ نہیں
کربلا جیسے کہ دل ہے اور لہو آب فرات
جانے اصغر تشنگی اپنی بجھائے کب تلک
علی ابن علی طالب کا جب بھی نام آتا ہے
بڑا لشکر بھی کفار عرب کا کانپ جاتا ہے
مجھے تو سفر پہ ہی رہنا ہے ہردم
یہ لوٹا ہے لاٹھی ہے بستر ہے میں ہوں
کوثر مظہری کی شاعری کا ایک اہم دائرہ پانی ،موج، صحرا اور سمندر سے بنتا ہے۔جس میں ان کے علاوہ دیگر لوازمات کوبھی انہوں نے برتا ہے۔ان اشعار سے کوثر مظہری کے غور و فکر والے ذہن کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس کی وجہ سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے ان لفظوں کو کہیں علامت تو کہیں استعارہ نیز پیکر کے ساتھ ساتھ اساطیری حوالو ں کے طور پر بھی برتا ہے اور ان کی یہ کوشش بلا شبہ کامیاب اور مستحسن ہے ۔
اخلاص تھا چاہت میں اور پیاس میں شدت تھی
اللہ نے چاہا تو صحرا میں اٹھا پانی
میں نے سوچا کہ ستائے گی بہت پیاس مجھے
پی گیا جھونک میں بس آکے سمندر سارا
موجیں اٹھ اٹھ کے تہہ آب چلی جاتی ہیں
ہاں مگر کس کی ہے تصویر بناتی جاتی ہیں
یہ سطح اب پر موجوں کا رقص اچھا تو لگتا ہے
چھپی لیکن انہیں موجوں میں طغیانی بھی ہوتی ہے
میں پانی ہو ں مگر ساحل کی جانب بہہ رہا ہوں
ادھر سے ہٹ کے اب منجدھار ہونا چاہتا ہوں
پہلا شعر حضرت اسماعیل علیہ اسلام کے واقعہ کی طرف ذہن لے جاتا ہے مگر اس شعر میں اللہ نے چاہا تو کافقرہ بہت برمحل ہے۔ عینی اس کی اجازت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا اس کے ساتھ ہی دوسرے مصرع سے یہ بھی مترشخ ہورہا ہے کہ وہ جو چاہے تو صحرا سے بھی پانی نکال سکتا ہے۔
دوسرے اور تیسرے شعر میں پیکر ہے خاص طور سے تیسرے شعر میں پیکر کے ساتھ ساتھ ڈرامائیت بھی ہے ۔ لیکن سارے اشعار کا ایک بنیادی نکتہ یہ بھی ہے کہ کہیں یہ پانی زندگی کی بشارت دیتا ہے تو کہیں زندگی کے خطرات کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ اور دونوں صورتوں میں نشانہ انسانی وجود ہی ہوتا ہے۔
کو ثر مظہری کی شعری کائنات میں خواب مکان اورغم کے ساتھ ساتھ بہت سارے مواقع پر ان کا استعجابیہ انداز قاری کو نہ صرف متوجہ کرتا بلکہ یہ احساس بھی جگاتا ہے کہ کائنات کے یہ مسائل زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ع
ملے ہیں محو کو فقط خواب ہے مکانی کے
تمہارے خواب میں بھائی کوئی مکان ہے کیا

کوثر مظہری کے نزدیک شاعری کا سب سے بڑا کام اضطراب کو سکون میں بدلنا اور پرسکون دلوں کو مضطرب کرنا ہے۔ ان کے نزدیک فن کار کے لئے کجی لازمی ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے ان دعوؤ ں کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔خواب و خیال کی وہ دنیا جسے عام طور پر شعری اساس تصو ر کیا جاتارہا ہے اور اس کی بیش ازبیش کار فرمائی شعرا کے کلام میں ہمیں ملتی ہے ۔ اس کے کچھ رنگ ہمیں کوثر مظہری کے یہاں ضرور مل جائیں گے مگر ان کی شاعری کا غالب پہلو انسانی درد، اس کی مختلف کیفیات اور زندگی کو حسن عطا کرنے والے مظاہر فطرت ہیں۔ فطرت اور انسانی زندگی کے درمیان جو کشمکش یا ربط و تعلق ہے اس کا ایک حوالہ تو وہی سمندر ، پانی ، موج کی صورت میں گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ غالباً اس کی اگلی منزل مکان اور خواب کی صورت میں ’ماضی کا آئندہ‘ میں ہمیں ملتا ہے۔

Friday, January 21, 2011

شاعر ترا، انشاء ترا-ابن انشاء کی آخری آرام گاہ

شاعر ترا، انشاء ترا-ابن انشاء کی آخری آرام گاہ

11 جنوری 1978 انشاء جی کی تاریخ وفات ہے، حال ہی میں گزرے اس دن کو
پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز نے یاد رکھا اور خبر نشر کی لیکن کسی نے
انشاء جی کی قبر کی تصویر نہ دکھائی، وجہ اس کی یہ ہے کہ انشاء جی کی قبر
پر کتبہ نہیں ہے۔ (منسلک تصاویر میں پہلی تصویر اس احاطے کی ہے جس کی
درمان والی قبر انشاء جی کی ہے)

21 جنوری 2011 کی ایک ڈھلتی شام کو مشفق خواجہ صاحب کی لائبریری کا قصد
تھا اور وہاں حآضری سے قبل خیال آیا کہ انشاء جی کو سلام کرلیا جائے۔ دو
برس پیشتر کراچی کے ایک نجی ٹی وی کے ایک رپورٹر نے، جن کو ہم جناب ابن
صفی کی قبر پر لے گئے تھے، قریب سے گزرتے وقت ہاتھ کے اشارے سے کہا تھا
"یہ انشاء جی کی قبر ہے"
جس طرف وہ ہاتھ کا اشارہ کرتا تھا وہ قبرستان کا داخلی رستہ تھا، گاڑی
چشم زدن میں اس کے سامنے سے گزر گئی تھی۔ دع برس کا عرصہ گزرا اور کچھ تگ
و دو کے بعد  نہ صرف انشاء جی کی نے نام و نشان قبر ملی بلکہ وہاں
اطمینان سے فاتحہ پڑھنے کا موقع بھی نصیب ہوا:

تو باوفا، تو مہرباں، ہم اور تجھ سے بدگماں؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھہرا ترا
ہم پر یہ سختی کی نظر؟ ہم ہیں فقیر راہگزر
رستہ کبھی روکا ترا، دامن کبھی تھاما ترا
ہاں ہاں تیری صورت حسیں لیکن تو اتنا بھی نہیں
اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا

پی آئی سے کی جس فلائٹ سے انشاء جی کا تابوت آیا تھا اس کے پائلٹ نے
استاد کی آواز میں ‘انشاء جی اٹھو‘ لگادی تھی اور راوی بیان کرتا ہے کہ
تمام مسافروں کی آنکھیں اشکبار تھیں

نریش کمار شاد تقسیم کے بعد دلی سے لاہور آئے تو منٹو صاحب کی قبر پر جا
کر بہت روئے اور کہا:

" خدا مسلمانوں کو خوش رکھے- ہمارے پیاروں کا نشان (قبر) تو بنا دیتے ہیں

ہم اپنے مشاہیر ادب کے واسطے ان کی زندگی میں اور تو کچھ نہیں کرسکتے،
وقات کے بعد کم از کم ان کی قبر پر ایک کتبہ تو لگا سکتے ہیں

Thursday, January 20, 2011

سید احمد شاہ فراز

اصلی نام: سید احمد شاہ
تخلص: فراز
پیدائش: 14 جنوری، 1931
انتقال: 25 اگست، 2008
نامور شاعر احمد فراز طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں 25 اگست، 2008 پیر اور منگل کی درمیانی شب خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے انہیں علاج کیلئے امریکہ بھی لے جایا گیا تھا بعد میں انہیں وطن واپس لایا گیا جہاں وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے تاہم آج شب مالک حقیقی سے جا ملے ان کے بیٹے نے ان کی انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہاہے کہ ان کے والد داغ مفارقت دے گئے ہیں اور وہ ہسپتال میں رات بارہ بجے کے قریب اس دار فانی سے کوچ کر کے عالم جاودانی کی طرف چلے گئے تھے ۔
احمد فراز (سید احمد شاہ) 14 جنوری 1931 کو صوبہء سرحد کے بالائی علاقے نوشہرہ (اٹک) میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم ’’اسلامیہ ہائی اسکول‘‘ کوہاٹ میں حاصل کی ، جبکہ بی اے کی سند ’’ایڈورڈ کالج‘‘ پشاور سے حاصل کی۔ بعد ازاں ، فراز نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کی سند حاصل کی۔زمانہ طالب علمی (نویں دسویں جماعت) میں ہی فراز نے غزلیں اور نظمیں کہنا شروع کردی تھیں اور جب وہ کالج پہنچے تو پشاور کے ادبی حلقوں میں بحیثیت پہلے ہی شاعر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوچکے تھے۔مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل ’’ رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیئے آ ‘‘ سے احمد فراز کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔
فراز نے معاشی حوالے سے یکے بعد دیگرے کئی ملازمتیں اختیار کیں، سب سے پہلے ریڈیوپاکستان میں بطور پروڈیوسر کام کیا، بعد ازاں انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور میں بحیثیت اردو و فارسی کے لیکچرار کے کسبِ معاش کیا، اس کے بعد وہ پاکستان نیشنل سینٹر میں صدر ہدایتکار (پریذیڈنٹ ڈائریکٹر) رہے اور تفویض کی گئی ذمہ داریاں کماحقہ ادا کرنے پر ’’ پاکستان اکادمی ادبیات ‘‘ کے چئیر مین کے منصبِ اعلی پر فائز ہوئے اورپاکستان کے ثقافتی ورثہ کے چئیرمین منتخب ہوئے ساتھ ہی’’قومی اساسِ کتب ‘‘ (نیشنل بک فاؤنڈیشن) کے چیئر مین بھی رہے۔
شعری سفر اختیار کرنے کے بعد کچھ ہی عرصے میں فرازمعروف ترین و متبادل شاعر کے طور پر جانیجانے لگے اور وہ بھی فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی اور حبیب جالب ایسی نابغہ روزگار ہستیوں کے ہوتے ہوئے۔فراز مملکتِ اردو ادب کے واحد شاعر تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں بے پایاں عالمگیر شہرت حاصل کی، فراز کے اسالیبِ شعری کی خاص بات زندگیوں پر براہِ راست اثر پزیری، بلاواسطہ اور آلودگیِ نشیب سے مبّرا سچائی، غزل کی نغمگی، کیفیات و جذبات و وجدان کا کھرا پن ، ندرتِ خیال،دل موہ لینے والی رومانوی و خواب آور کسک، گمان کے ہلکورے لیتے کٹورے، یقین کے ہمالے اور تصنّوع کی آلائشوں سے پاک جمالیاتی شاعرانہ اظہارہے۔
فراز، فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کی طرح اپنے عام قارئین اور ادبی فہم رکھنے والوں کے دلوں میں یکساں دھڑکتے تھے، جب وہ ترقی پسندی کی تحریک میں پوری طرح منہمک تھے تو ان کے شعری اظہار میں قدرتی سماجی سیاسی شعور بھی ضوفشاں نظر آنے لگا، پاکستان جیسے معاشرے کے تناظر میں جہاں عوام واقدار قتل ہوتا ہے وہاں ترقی پسندی اور سیاسی بصیرت پر مبنی اسلوب اپنی نفی کردینے کے مترادف ہے فراز دل جمعی سے اپنا اسلوب نکھارتے رہے اور استحصالی طبقے کیلئے آواز بلند کرتے رہے، اب ان کی شاعری میں (اداریاتی استعماروں کے خلاف)’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ رویہ پروان چڑھ رہا تھا، فراز معاشرتی المیہ پر ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ سے ہمیشہ کا بیر رکھتے تھے، فراز، فیض کی طرح شعری اظہار کے تناظر میں اپنے اسلوب پر سختی سے کاربند رہے اور اظہار کو نعرے بازی سے پاک رکھتے ہوئے کیفیات کے مدھر سروں کو تاثرات کاجامہ پہناتے رہے، وہ فلسفہ اور منطقی پیرائے میں توازن کے فن سے بخوب واقف تھے۔
ضیاء الحق کے دور حکومت کے دوران احمد فراز نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی اور وہ اس دوران تین سال تک برطانیہ ، کینیڈا اور یورپ میں قیام پذیر رہے جلا وطنی کے دوران انہوں نے اپنی بہترین انقلابی نظمیں تخلیق کیں جن میں ’’ محاصرہ ‘‘ مشہور ترین نظم ہے۔ ان کی دیگر مشہور شاعری مجموعہ میں تنہا تنہا، دردِ آشوب، نایافت، جاناں جاناں، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، خوابِ گل پریشاں ہے اور پیماں ، شامل ہیں۔
احمد فراز کو ان کی زندگی میں ‘‘آدم جی ایوارڈ ‘‘ (پاکستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ)، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ، ٹاٹا ایوارڈ، اکادمی ادبی ایوارڈ ، کینیڈا سے نوازا گیا۔ انہوں نے بیشمار قومی ایوارڈز حاصل کیے۔ ان میں سب سے اہم ہلال امیتاز 2004 میں حاصل کیا جو حکومتی پالیسیوں کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔
احمد فراز کی ایک غزل سے پسندیدہ اشعار
ہم سنائیں تو کہانی اور ہے
یار لوگوں کی زبانی اور ہے
جو کہا ہم نے وہ مضمون اور تھا
ترجمان کی ترجمانی اور ہے
نامہ بر کو کچھ بھی ہم پیغام دیں
داستاں اس نے سنانی اور ہے
آپ زمزم دوست لائے ہیں عبث
ہم جو پیتے ہیں وہ پانی اور ہے
شاعری کرتی ہے اک دنیا فراز
پر تیری سادہ بیانی اور ہے
فراز صاحب اپنے وطن پاکستان میں جتنے مشہور و معروف تھے ، اتنے ہی ہندوستان میں بھی مقبول تھے۔ وہ بھارت کو اپنا دوسرا گھر بھی کہتے تھے۔ ہندوستان کے کسی بھی بڑے مشاعرے میں ان کی شرکت ضروری سمجھی جاتی تھی۔ پچھلے دنوں شنکر۔شاد مشاعرے کے علاوہ جشنِ بہار میں بھی وہ مدعو رہے اور سامعین کے پْرزور اصرار پر اپنی وہ طویل غزل بھی سنائی تھی :
سنا ہے لوگ اْسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
اپنے ایک انٹرویو میں فراز نے کہا تھا : دکھی لوگوں نے مجھے بہت پیار دیا ہے۔ اور اسی ضمن میں ان کا ایک مشہور شعر ہے۔۔۔
اب اور کتنی محبتیں تمہیں چاہئے فراز
ماؤں نے ترے نام پہ بچوں کے نام رکھ لئے
فراز کی رحلت کو یہ شعر بھی اچھی طرح بیان کرتا ہے۔۔۔
کیا خبر ہم نے چاہتوں میں فراز
کیا گنوایا ہے کیا ملا ہے مجھے
فراز گزر گئے ، لیکن فراز کی شاعری کل ، آج اور آنے والے کل بھی ہر سخن فہم کو کتابوں میں دبے پھولوں کی طرح مہک دئے جائے گی۔۔۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو نشہ برپا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں
ایک شاعر جب اپنی وارداتِ قلبی بیان کرتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ اسکا ایک ایک لفظ سچ ہے، آفاقی حقیقت ہے اور اٹل اور آخری سچائی ہے اور ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ کسی انسان کے اوپر جو گزرتی ہے وہی اس کیلئے حقیقت ہے، فراز کی اپنی زندگی اپنے اس شعر کے مصداق ہی گزری اور کیا آفاقی اور اٹل سچائی ہے اس شعر میں:
میں زندگی سے نبرد آزما رہا ہوں فراز
میں جانتا تھا یہی راہ اک بچاؤ کی تھی
فراز کی شاعری انسانی جذبوں کی شاعری ہے وہ انسانی جذبے جو سچے بھی ہیں اور آفاقی بھی ہیں، فراز بلاشبہ اس عہد کے انتہائی قد آور شاعر تھے۔ فراز کی زندگی کا ایک پہلو انکی پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد ہے، اس جدوجہد میں انہوں نے کئی مشکلات بھی اٹھائیں لیکن اصول کی بات کرتے ہی رہے۔ شروع شروع میں انکی شاعری کی نوجوان نسل میں مقبولیت دیکھ کر ان کی شاعری پر بے شمار اعتراضات بھی ہوئے، انہیں ‘اسکول کالج کا شاعر’ اور ‘نابالغ’ شاعر بھی کہا گیا۔ مرحوم جوش ملیح آبادی نے بھی انکی شاعری پر اعتراضات کیئے اور اب بھی انگلینڈ میں مقیم ‘دریدہ دہن’ شاعر اور نقاد ساقی فاروقی انکی شاعری پر بہت اعتراضات کرتے ہیں لیکن کلام کی مقبولیت ایک خدا داد چیز ہے اور فراز کے کلام کو اللہ تعالٰی نے بہت مقبولیت دی۔ انکی شاعری کا مقام تو آنے والا زمانے کا نقاد ہی طے کرے گا لیکن انکی آخری کتاب ‘‘اے عشق جنوں پیشہ’’ جو پچھلے سال چھپی تھی، اس میں سے ایک غزل لکھ رہا ہوں جو انہوں نے اپنے کلام اور زندگی کے متعلق کہی ہے اور کیا خوب کہی ہے۔
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا

ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار بے فیض سے ہلکا سا ملال اچھا ہے
لذتیں قرب و جدائی کی ہیں اپنی اپنی
مستقل ہجر ہی اچھا نہ وصال اچھاہے
رہروان رہ الفت کا مقدرمعلوم
ان کا آغاز ہی اچھا نہ مال اچھا ہے
دوستی اپنی جگہ، پر یہ حقیقت ہے فراز
تری غزلوں سے کہں تیرا غزال اچھا ہے

احمد فراز کی رحلت بلا شبہ اردو کے ایک عظیم دور کا خاتمہ ہے، ایک ترقی پسند شاعر اس دنیا سے چلا گیا، ایسے ہی لوگوں کیلئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا

my website

www.startnewstoday.com