Saturday, February 26, 2011

سلیم شہزاد کی شاعری

سلیم شہزاد کی شاعری
ظفر اقبال

سلیم شہزاد ہمارے سینئر اور متنوع شعراء میں شمار ہوتے ہیں جن کی تخلیقات پنجابی سے لے کر اردو، اور سرائیکی تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ “کاں بنیرے سکن” انکا پہلا پنجابی شعری مجموعہ ہے جبکہ “ماسوا” کے نام سے اردو نظموں کا مجموعہ زیور طبع سے آراستہ ہو چکا ہے اور “قسم ہے کنارے کی” کے عنوان سے اردو نظموں کا مجموعہ زیر طبع ہے ۔ “کریلی” کے نام سے سرائیکی ناول اور “کانڈھا” کے عنوان سے سرائیکی نظموں کی کتاب بھی شائع ہو چکی ہے ۔ زیر نظر کتاب سچیت کتاب گھر لاہور نے کوئی سوا دو سال پہلے چھاپی جس کی ضخامت پونے تین سو صفحات سے زیادہ ہے اور جس کی قیمت 175 روپے رکھی گئی ہے ۔
اس کتاب کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کی نظم و نثر آمنے سامنے گورمکھی اور شاہ مکھی رسم الخط سے مزئین ہے تاکہ مشرقی پنجاب میں رہنے والے شائقین بھی اس سے استفادہ کر سکیں جو شاہ مکھی سکرپٹ سے آشنا نہ ہوں ۔ کتاب کا بیحد خوبصورت سرورق ہمارے دوست ذوالفقار تابش نے بنایا ہے ، ایک بہت عمدہ شاعر ہونے کے علاوہ خطاطی اور مصوری میں انہوں نے ہمارے لیجنڈ حنیف رامے کی ہدایت کو اس طور سینے سے لگا رکھا ہے کہ انہیں حنیف رامے کی توسیع کہا جا سکتا ہے ۔ کتاب مجلد ہے اور عمدہ گٹ اپ میں شائع کی گئی ہے جبکہ پس سرورق شاعر کی رنگین تصویر اور غلام حسین راجہ، نسرین انجم بھٹی اور اظہر جاوید کی مختصر آراء شائع کی گئی جو ان کے دیباچوں سے ماخوذ ہیں ۔
جس طرح آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے ، اسی طرح کتاب بھی اپنے دیباچوں اور فلیپ کی تحریروں سے پہچانی جاتی ہے ۔ اول تو دیباچہ لکھوانا ہے ہی ایک فضول اور بے معنی کام جو میرے سمیت تقریباً سبھی کرتے ہیں جبکہ اکثر اوقات وہ خوبیاں کتاب میں ہوتی ہی نہیں جو دیباچوں اور تقریضوں میں بیان کی گئی ہوتی ہیں جو قاری کو مایوس کرنے کا سبب بنتی ہیں حالانکہ شاعر کو دیباچہ نگار کی نسبت قاری ہی پر انحصار کرنا چاہئے ۔ نیز ان فارمولا قسم کے دیباچوں کو پڑھتا بھی کوئی قسمت کا مارا ہی ہو گا کیونکہ بوجوہ انہیں زیادہ سے زیادہ ناقابل مطالعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہوتی ہے ، حالانکہ
حاجت مشاط نیست روئے دلا رام را
سلیم شہزاد کا پہلا امتیاز وہ زندہ زبان ہے جو انہوں نے اپنی نظموں میں استعمال کی ہے اور جو یقینی طور پر اربنائز ہونے سے کافی حد تک بچی ہوئی ہے اور ہمارے دیہات ہی میں پورے جوش و جذبے سے بولی جاتی ہے ، بلکہ اگر یہ بھی کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا کہ ہماری ماں بولی کو باقاعدہ دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے یعنی ایک تو وہ جو شہروں میں آ کر اپنی تاب و تواں کھو بیٹھی ہے اور لازمی طور پر خون کی کمی کا شکار ہے اور دوسری وہ جو شہر کی ہوا لگنے سے بچ گئی ہے ۔ چنانچہ شاعری بھی دو ہی طرح کی ہو رہی ہے اور جس میں یہ دونوں لہجے الگ الگ برتے جا رہے ہیں اس کتاب کی چنانچہ اصل شناخت اس کی غیر آلودہ زبان ہی ہے ۔ اگرچہ ضخامت میں اضافے کی وجہ گورمکھی سکرپٹ کا اہتمام بھی ہے تاہم ایک اور سبب یہ بھی کہ اکثر نظمیں بیحد مختصر ہیں جو کہ بجائے خود بہت اچھی بات ہے ، لیکن طرز ترتیب کی وجہ سے بھی یہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ اوپر نیچے مصرعے لکھنے سے کم از کم دو تہائی جگہ ہر صفحے پر بچائی جا سکتی تھی جہاں مصرعوں کو قوس بنا کر عموماً ہر لفظ اوپر تلے درج کیا گیا ہے ۔ کتاب کا انتساب محمد آصف خان، احمد رشید بھٹی اور علی اشرف قریشی کے نام ہے ۔
افضل راجپوت کے شعری مجموعے “ہڑھ آون تو پہلاں ” پر میں کہیں اور اظہار خیال کر چکا ہوں ۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ میری طرح افضل راجپوت کی پیدائش بھی بہاولنگر کی ہے اور وہ وہیں پر رہائش پذیر بھی ہے ، جبکہ سلیم شہزاد کی جنم بھومی کا تو علم نہیں لیکن رہائش اس کی بھی بہاول نگر ہی کی ہے جو میرا ننھیال ہے ۔ سلیم شہزاد کی نظموں میں صحیح زبان کے علاوہ گہرائی اور پیچیدگی بھی دستیاب ہے جبکہ نظریاتی طور پر اس کا قبلہ بھی بظاہر درست لگتا ہے نیز ابہام بجائے خود شاعری کا حسن ہے ۔ میری پوری اور ذاتی رائے میں شاعری کے اندر دوسری یعنی محولہ بالا خوبیوں کے علاوہ تازگی اور لطف سخن کا ہونا بھی بیحد ضروری ہوتا ہے ، اور جس کا زیادہ سے زیادہ اہتمام سلیم شہزاد کر بھی سکتے تھے کیونکہ قاری، شاعری کو اپنے علم و دانش اور آگاہی میں اضافے کے لئے نہیں بلکہ ایک ذہنی اور وجدانی آسودگی کے لئے پڑھتا ہے اس لئے شاعری اپنی دیگر بہت سی خوبیوں کے باوجود اگر لطف سخن ہی مہیا نہیں کرتی، یا اس سلسلے میں اس کا ہاتھ تنگ رہتا ہے تو شاعری کو اس پر فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ، اگرچہ
قبول خاطر و لطف سخن خدا دادست
مجھے اس کتاب میں سے جو دو نظمیں بطور خاص اچھی لگی ہیں ، ان میں سے ایک جس کا عنوان “نظم” ہے ، ملاحظہ کریں ۔
ٹھنڈے برف وجوداں اندر بندے
شل پے جاندے نیں
کدی کدی تے کوڑے رشتے
اپنے گل پے جاندے نیں
اپنیاں گنجھلاں کھولن لگیا
بہتے ول پے جاندے نیں
دوسری نظم جس کا عنوان ہے “افصل راجپوت لئی” یوں ہے
تیرے دھونے دھو نہیں سکدا
میتھوں تے ایہہ ہو نہیں سکدا
تو وی ہو کے ہاواں ڈک لے
جیوندیاں نوں میں رو نہیں سکدا
بظاہر چار مصرعوں کی یہ نظم دو صفحوں پر پھیلائی گئی ہے ، اور اسی طرح گورمکھی سکرپٹ میں بھی۔

No comments:

Post a Comment