شاعر ترا، انشاء ترا-ابن انشاء کی آخری آرام گاہ
11 جنوری 1978 انشاء جی کی تاریخ وفات ہے، حال ہی میں گزرے اس دن کو
پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز نے یاد رکھا اور خبر نشر کی لیکن کسی نے
انشاء جی کی قبر کی تصویر نہ دکھائی، وجہ اس کی یہ ہے کہ انشاء جی کی قبر
پر کتبہ نہیں ہے۔ (منسلک تصاویر میں پہلی تصویر اس احاطے کی ہے جس کی
درمان والی قبر انشاء جی کی ہے)
21 جنوری 2011 کی ایک ڈھلتی شام کو مشفق خواجہ صاحب کی لائبریری کا قصد
تھا اور وہاں حآضری سے قبل خیال آیا کہ انشاء جی کو سلام کرلیا جائے۔ دو
برس پیشتر کراچی کے ایک نجی ٹی وی کے ایک رپورٹر نے، جن کو ہم جناب ابن
صفی کی قبر پر لے گئے تھے، قریب سے گزرتے وقت ہاتھ کے اشارے سے کہا تھا
"یہ انشاء جی کی قبر ہے"
جس طرف وہ ہاتھ کا اشارہ کرتا تھا وہ قبرستان کا داخلی رستہ تھا، گاڑی
چشم زدن میں اس کے سامنے سے گزر گئی تھی۔ دع برس کا عرصہ گزرا اور کچھ تگ
و دو کے بعد نہ صرف انشاء جی کی نے نام و نشان قبر ملی بلکہ وہاں
اطمینان سے فاتحہ پڑھنے کا موقع بھی نصیب ہوا:
تو باوفا، تو مہرباں، ہم اور تجھ سے بدگماں؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھہرا ترا
ہم پر یہ سختی کی نظر؟ ہم ہیں فقیر راہگزر
رستہ کبھی روکا ترا، دامن کبھی تھاما ترا
ہاں ہاں تیری صورت حسیں لیکن تو اتنا بھی نہیں
اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا
پی آئی سے کی جس فلائٹ سے انشاء جی کا تابوت آیا تھا اس کے پائلٹ نے
استاد کی آواز میں ‘انشاء جی اٹھو‘ لگادی تھی اور راوی بیان کرتا ہے کہ
تمام مسافروں کی آنکھیں اشکبار تھیں
نریش کمار شاد تقسیم کے بعد دلی سے لاہور آئے تو منٹو صاحب کی قبر پر جا
کر بہت روئے اور کہا:
" خدا مسلمانوں کو خوش رکھے- ہمارے پیاروں کا نشان (قبر) تو بنا دیتے ہیں
ہم اپنے مشاہیر ادب کے واسطے ان کی زندگی میں اور تو کچھ نہیں کرسکتے،
وقات کے بعد کم از کم ان کی قبر پر ایک کتبہ تو لگا سکتے ہیں
No comments:
Post a Comment