اصنافِ شعر
یعقوب آسی
اردو میں رائج اصنافِ شعر کو دو حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے: ہیئت کے اعتبار سے اور نفسِ مضمون کے اعتبار سے۔ ہیئت کے حوالے سے اب تک متعارف ہونے والی اصناف میں گیت، دوہا، کافی، ماہیا، ثلاثی، ہائیکو، رباعی، مخمس، مسدس، ترکیب بند، قطعہ بند، مسبع، معریٰ نظم، آزاد نظم، غنائیہ اور غزل نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ نفسِ مضمون کے حوالے سے ان اصناف میں حمد، نعت، منقبت، قصیدہ، ترانہ، ہجو، شہر آشوب، خمریات، ہزل (یعنی اینٹی غزل)، غزل، سہرا، مرثیہ، مناجات، بہاریہ اور واسوخت جانی پہچانی صورتیں ہیں۔ نام نہاد ”نثری نظم“ ہمارے نکتہ نظر سے نظم کی نہیں بلکہ نثر کی ایک صورت ہے اور اس کے لئے بہت مناسب نام ”نثرِ لطیف“ پہلے سے موجود ہے۔
اس کتاب کا موضوع نفسِ مضمون نہیں ہے اور ہیئت کے اعتبار سے بھی ہم مختلف اصناف کی تفصیل میں جائے بغیر شعر کے اوزان کا مطالعہ کریں گے۔ تاہم موزوں ہو گا کہ نظم کے ہیئتی گروہ میں سے چیدہ چیدہ اصناف پر قدرے تفصیل سے بات ہو جائے۔
غزل: غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ابتداً قصیدہ کا حصہ تھی۔ قصیدہ عربی کی ایک قدیم اور معروف صنف ہے جس میں شاعر اپنے قبائلی سراداروں اور سورما
¶ں اور قومی مشاہیر کی زندگی میں ان کی تعریف و توصیف (جس میں خوشامد بھی شامل ہے) بڑے جاندار لفظوں میں کیا کرتے تھے۔ قصیدہ کے لئے زورِ بیان، با وقار انداز اور اعلیٰ فنی مہارت ضروری ہے۔ قصیدہ کو عام طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تشبیب میں شاعر اپنے خیالات کی جولانی دکھاتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو زورِ بیان پر صرف کرتا ہے۔ تشبیب سے اصل مضمون کی طرف رجوع کا نام گریز بھی ہے۔ یہاں پیرایہ اظہار میں نفاست ہوتی ہے اور گریز کے لئے حسنِ تعلیل سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد مدح ہوتی ہے۔ شاعر اپنے ممدوح کے لئے بلند خیالی کا اظہار کرتا ہے اور اس کی توصیف کرتا ہے۔ آخر میں وہ ممدوح کو دعا دیتا ہے یا اس کے سامنے اپنی طلب پیش کرتا ہے۔ بعض قصائد میںدعا اور طلب ساتھ ساتھ ملتی ہیں۔
تشبیب میں پائے جانے والے زورِ بیان، ندرتِ خیال، موسیقیت، رومانی اور نازک موضوعات اور حسنِ بیان میں خود اتنی جان تھی کہ تشبیب کے اشعار یا ابیات کو قصیدہ سے الگ کر کے بھی پڑھا یا سنا جائے تو ان کا اپنا ایک تاثر بنتا تھا۔ اس خوبی کی بنا پر اس کی ایک آزاد حیثیت ایک الگ صنف ِ سخن کے طور پر معروف ہو گئی جسے ”غزل“ کہا گیا۔ غزل کی تعریف مختلف ادوار میں مختلف انداز میں کی جاتی رہی ہے۔ لفظ ’غزل‘ کے معنی کے لحاظ سے اور اس کے موضوعات کے حوالے سے ”غزل“ کو جو کچھ کہا جاتا رہا ، اس تفصیل کا اجمال کچھ اس طرح ہے:
۱۔ عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی سی باتیں کرنا، جسے ریختی بھی کہا جاتا ہے۔
۲۔ ہرن (غزال) جب زخم خوردہ ہو تو جو آواز وہ شدتِ خوف اور شدتِ درد کے عالم میں نکالتا ہے اسے بھی غزل کہتے ہیں۔ اس حوالے سے درد و الم کے بیان کو غزل کا موضوع کہا جاتا ہے۔
۳۔ محبوب کا شکوہ، اس کے لئے اپنے جذبے اور وارفتگی کا بیان، اس کی بے اعتنائی کا احوال غزل کا محبوب موضوع رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ محبوب حقیقی بھی ہو سکتا ہے، مجازی بھی، خیالی بھی اور بعض شعرا کے ہاں اپنی ذات محبوب کا درجہ رکھتی ہے۔
۴۔ دوستوں اور زمانہ کی شکایت، اپنے ذاتی، اجتماعی یا گروہی رنج و الم کا بیان۔
۵۔ اپنے گرد و پیش کے مسائل کا بیان اور ذاتی تجربات اور مشاہدات کا قصہ، ارادوں کا اظہار اور ان کے ٹوٹنے پر دکھ کی کیفیت۔
۶۔ گل و بلبل، جام و مینا، لب و عارض کا بیان۔ خیال آفرینی، معنی آفرینی اور حسنِ بیان۔
۷۔ بقول پروفیسر رشید احمد صدیقی: ”ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے رنگ و آہنگ، سمت و رفتار اور وزن اور وقار ملا ہے“۔ فراق گورکھپوری کے بقول ”اردو غزل کا عاشق اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے نہیں اپنی تہذیب کی آنکھوں سے دیکھتا ہے“۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا ہے:
غزل کے روپ میں تہذیب گا رہی ہے ندیم
مرا کمال مرے فن کے اس رچا
مرا کمال مرے فن کے اس رچا
¶ میں تھا
آج کی غزل کا میدان بہت وسیع ہے۔ دنیا جہان کے موضوعات غزل میں سما گئے ہیں۔ سنجیدگی، متانت اور ماتمی کیفیات کے ساتھ ساتھ طنز اور ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی آج کی غزل میں پائی جاتی ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ تصوف، عقائد اور مابعدالطبیعیاتی مسائل بھی آج کی غزل کا اہم موضوع ہیں۔ موضوعاتِ غزل میں جو کچھ بھی شامل ہو سکے ہونا چاہئے تاہم ایک بنیادی شرط پر کہ کسی صورتِ حال یا واقعے یا فکر کو محض بیان کر دینے کا نام غزل نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ شاعر اپنا احساس اور تجربہ اپنے اندازِ اظہار میں شامل کرے اور قاری کو یہ باور کرا سکے کہ اس نے کس حد تک کسی صورتِ حال کا اثر لیا ہے۔ اگر قاری (یا سامع) بھی شاعر کے تجربے کو محسوس کر سکے تو یہ غزل کی ایک اور خوبی ہو گی۔ غزل کے ہر شعر کا نفسِ مضمون الگ ہو سکتا ہے اور مجموعی طور پر غزل کا ایک تاثر بھی بن سکتا ہے۔ بعض نقاد ریزہ خیالی کو غزل کا حسن قرار دیتے ہیں اور بعض وحدتِ تاثر کو۔
ہیئت کے اعتبار سے غزل میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ غزل مطلع سے شروع ہوتی ہے۔ مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہم ردیف ہوتے ہیں۔ پوری غزل ایک بحر میں ہوتی ہے۔ ہر شعر کا مصرعِ ثانی مطلع کے ساتھ ہم قافیہ ہم ردیف ہوتا ہے۔ غزل کے آخری شعر کو جس میں شاعر اپنا نام یا تخلص لاتا ہے، مقطع کہتے ہیں۔ مصرعِ اول کسی بھی شعر کا پہلا مصرع ہوتا ہے جبکہ مصرعِ اولیٰ مطلع کا پہلا مصرع ہوتا ہے۔ غزل میں اشعار کی تعداد پر کوئی قید نہیں۔ بالعموم چار سے پندرہ اشعار تک کی غزلیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ غالب کے ہاں تین شعر تک ملتے ہیں، دوسری طرف مشاہیر کے ہاں چالیس چالیس اشعار کی غزل بھی ملتی ہے اور دو غزلے ، سہ غزلے اور چہار غزلے بھی۔ غزل کے اندر ایک سے زائد اشعار مسلسل مضمون کے آ جائیں تو ان کو قطعہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے ”آزاد غزل“ کا نام نہاد ’تجربہ‘ سامنے آیا ہے، جس میں کچھ ہم وزن ابیات کو اکٹھا لکھ دیا جاتا ہے اور اسے ”غزل“ کا نام دے دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ مستحسن نہیں۔
مرثیہ اور سہرا: مرثیے کے لئے کسی خاص ہیئت کی پابندی ضرور نہیں۔ میر انیس اور میرزا دبیر نے مسدس میں مراثی لکھے ہیں۔ہمارے ہاں” مرثیہ“ کی اصطلاح اس نظم کے لئے مختص ہو گئی ہے جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بنیادی موضوع ہو اور سانحہ کربلا کے حوالے سے رنج و غم کا اظہار کیا جائے۔ حقیقتاً مرثیہ ایسا قصیدہ ہے جو کسی مرحوم شخصیت کے لئے لکھا جائے۔ اس میں درد و الم اور ناپائیداری حیات کا اظہار پوری قوت کے ساتھ آتا ہے اور اس طرح مرثیہ میں ایک عمومی ماتمی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ انیس اور دبیر مرثیہ نگاری میں مستند مقام رکھتے ہیں۔ اقبال کی مشہور نظم ”والدہ مرحومہ کی یاد میں“ مرثیہ کی ایک انوکھی مثال ہے۔ اس نظم کی قابلِ ذکر خوبی یہ ہے کہ درد و الم اور ناپائیداری حیات کا اظہار اپنی پوری قوت کے ساتھ واقع ہونے کے باوجود ماتمی اور قنوطی کیفیت کی بجائے رجائیت لئے ہوئے ہے۔ اسے پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ مر جانا کوئی سانحہ نہیں بلکہ فطری عمل کا ایک حصہ ہے اور یہ کہ موت کا وجود منطقی طور پر بھی بہت ضروری ہے۔
سہرا برصغیر پاک و ہند کی سماجی زندگی کا ایک بڑا مظہر ہے۔ سہرا کہنے کی روایت اردو ادب سے باہر نہیں ملتی۔ یہ روایتاً بادشاہوں کی تاج پوشی، شادی، علالت سے صحت یابی، ولی عہد کی نامزدگی، شاہی تہوار، نرینہ اولاد کی ’وِدھائی‘ یعنی مبارک باد اور تہنیت وغیرہ کے حوالے سے کہی جانے والی نظم ہے۔ کسی دوست، بھائی کی شادی، کسی کی سالگرہ کے موقع پر سہرا کہنے کا رواج زیادہ پرانا نہیں۔ سہرا بنیادی طور پر درباری نوعیت کی شاعری ہے جس کا مضمون موقع کی مناسبت سے ہوتا ہے اور مزاج قصیدہ کے قریب قریب ہے۔ اس لئے بحر کے انتخاب میں بھی طربیہ تا
¿ثر کو ترجیح دی جاتی ہے۔
رباعی: محققین نے رباعی کو عجمی ادب کہا ہے۔ یہ چار مصرعوں کی بلا عنوان نظم ہوتی ہے جس میں ایک مضمون مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اس کا پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہم ردیف ہوتے ہیں۔ رباعی کے چوبیس اوزان مخصوص ہیںاور ایک ہی رباعی میں ان چوبیس میں سے کوئی ایک یا زائد اوزان جمع کئے جا سکتے ہیں۔ ہم نے رباعی کے لئے ایک باب مختص کیا ہے۔ قطعہ اور رباعی میں بنیادی فرق تو یہ ہے کہ قطعہ میں رباعی کے اوزان کی پابندی نہیں ہوتی تاہم قطعہ کے مصرعے جفت تعداد میں ہوتے ہیں اور جفت مصرعے، یعنی دوسرا، چوتھا، چھٹا وغیرہ ہم قافیہ ہم ردیف ہوتے ہیں۔قطعہ کو عنوان بھی دیا جا سکتا ہے اور یہ کسی غزل کے اندر بھی واقع ہو سکتا ہے۔
پابند، معرّیٰ اور آزاد نظم: پابند نظم وہ ہے جس میں کسی ایک(یا زائد ؛ جہاں ایسا ہو) وزن کی پابندی کی جائے اور ردائف و قوافی کی متعینہ ترتیب کو نبھایاجائے۔ معرّیٰ نظم میں قافیے کی پابندی نہیں ہوتی اور مصرعے طاق تعداد میں بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کی مثال اکبر الہ آبادی کے ہاں بھی ملتی ہے۔ اکبر نے اسے ”بلینک ورس، یعنی بلاقافیہ“ قرار دیا۔ قیاس غالب ہے کہ یہ صنف انگریزی سے آئی ہے۔ اس میں ردیف قافیہ کی پابندی نہ ہونے کی بدولت مضمون آفرینی قدرے آسان ہو سکتی ہے تاہم نظم نگار کو خیال رکھنا چاہئے کہ زبان کی لطافت اور حسن قائم رہے۔ معرّیٰ نظم کے تمام مصرعے ہم وزن ہوتے ہیں۔ آزاد نظم میں بحر کی مخصوص صورت بھی قائم نہیں رہتی، اور نہ ہی مصرعوں کی ساخت، بلکہ وہاں سطریں بن جاتی ہیں۔ ہر سطر کی زخامت مختلف ہو سکتی ہے تاہم نظم میں ایک رکن یا زائد ارکان کا مجموعہ مکرر آتا ہے۔ یہ صنف آج کل بہت مقبول ہے۔ اب تو نظم کی سب صورتوں کوخواہ و ہ پابند ہوں، آزاد ہوں یا معرّیٰ، بلا تفریق ’نظم‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور نام نہاد ”نثری نظم“ کو بھی ان کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ ہم نثری نظم کو شاعری تسلیم نہیں کرے بلکہ نثر کی ایک صورت قرار دیتے ہیں جسے ”نثر لطیف“ بھی کہا جاتا ہے۔
ہائیکو: یہ چھوٹی بحر کے تین ہم وزن مصرعوں کی نظم ہے جس میں ایک خیال مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اس میں ردیف قافیے کی قید نہیں ہوتی (تینوں مصرعوں کے اوزان پر اختلافِ رائے پایا جاتا ہے، جس طرح اردو ماہئے کے دوسرے مصرعے پر اختلاف موجود ہے)۔ اس کے مضامین بھی ایک عرصے تک زیرِ بحث رہے اور پہلے پہل منظر نگاری تک محدود رہے۔ آج کل کہی جانے والی اردو ہائیکو میں غزل کی طرح متنوع مضامین آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ثلاثی پہلے سے موجود ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں جو ہم وزن، ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ ہائیکو کے بارے میں ایک دل چسپ غلط فہمی یہ بتائی جاتی ہے کہ جاپان والوں کے ہاں ہائیکو کی تخصیص ہیئت کے ساتھ نہیں بلکہ نفس مضمون کے ساتھ ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں اردو میں رائج ہائیکو کو ہیئت کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے اور اوزان پر ہونے والے مباحث ظاہر ہے کہ ہیئت سے تعلق رکھتے ہیں۔
ماہیا: ماہیا بنیادی طور پر پنجابی لوک شاعری کی ایک صنف ہے جس کا اصل موضوع فراق ہے،تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں دوسرے موضوعات بھی شامل ہو گئے ہیں۔ رسماً یہ دو مصرعوں میں لکھی جاتی ہے جو ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں تاہم پہلا مصرع ضخامت میں دوسرے مصرعے کا ٹھیک نصف ہوتا ہے۔ اس لئے اسے ڈیڑھ مصرعے کی صنف بھی کہا جاتا رہا ہے۔ آج کل اسے تین سطروں میں لکھا جاتا ہے۔ اردو ماہئے کی ابتدا چراغ حسن حسرت سے ہوتی ہے جب کہ بعض لوگوں نے ہمت رائے شرما کو اردو ماہئے کا بانی کہا ہے۔اس ضمن میں ایک اور اختلاف اردو ماہئے کے اوزان پر ہے۔ ماہئے پرایک تفصیلی مضمون ماہنامہ ”خط کشیدہ“ میں شامل ہے۔
بولی: بولی پنجابی لوک شاعری کی ایک بہت خاص چیز ہے۔ اس کی ایک مخصوص بحر ہے جس میں ایک ہی مصرعہ ہوتا ہے اور اسی میں پوری بات مکمل کرنی ہوتی ہے۔ اردو میں ’بولی‘ کہنے کے اب تک معدودے چند تجربات ہوئے جو خوش آئند ہیں۔ فی الحال یہ صنفِ شعر اردو میں عام نہیں ہوئی۔
غنائیہ: یہ صنف عربی کے وسیلے سے آئی ہے۔ اس کا تعلق قدیم غنائی لوک داستانوں سے بھی بنتا ہے۔ اوراس میں داستان کے علاوہ دیگر بے شمار موضوعات پائے جا سکتے ہیں۔ یہ صنف ”پیراگرافوں“ میں بٹی ہوتی ہے۔اور ہر پیرا گراف ایک الگ عروضی اکائی ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض غنائیوں میں نثری پیراگراف بھی پائے جاتے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے اس میں مسلسل مضامین لائے جاتے ہیں اور اس بات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے مضمون (یا داستان) کے منطقی بہاؤ¶ کے ساتھ ساتھ پیرایہ اظہار بدلتا چلا جائے۔ یوں غنائیہ میں تمثیلی انداز پیدا ہو جاتا ہے جس میں مکالموں کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ صنف تاریخی ڈراموں، واقعات اور داستانوں کے لئے بہت موزوں ہے ۔ غنائیہ کا ایک انداز قدیم انگریزی ڈراموں میں بھی دکھائی دیتا ہے جو عموماً نظم میں لکھے جاتے تھے۔
غنائیہ: یہ صنف عربی کے وسیلے سے آئی ہے۔ اس کا تعلق قدیم غنائی لوک داستانوں سے بھی بنتا ہے۔ اوراس میں داستان کے علاوہ دیگر بے شمار موضوعات پائے جا سکتے ہیں۔ یہ صنف ”پیراگرافوں“ میں بٹی ہوتی ہے۔اور ہر پیرا گراف ایک الگ عروضی اکائی ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض غنائیوں میں نثری پیراگراف بھی پائے جاتے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے اس میں مسلسل مضامین لائے جاتے ہیں اور اس بات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے مضمون (یا داستان) کے منطقی بہاؤ¶ کے ساتھ ساتھ پیرایہ اظہار بدلتا چلا جائے۔ یوں غنائیہ میں تمثیلی انداز پیدا ہو جاتا ہے جس میں مکالموں کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ صنف تاریخی ڈراموں، واقعات اور داستانوں کے لئے بہت موزوں ہے ۔ غنائیہ کا ایک انداز قدیم انگریزی ڈراموں میں بھی دکھائی دیتا ہے جو عموماً نظم میں لکھے جاتے تھے۔
اصنافِ شعر
No comments:
Post a Comment