Friday, March 25, 2011

آزاد شاعری کی معنویت اور مقصدیت ؟

آزاد شاعری کی معنویت اور مقصدیت ؟

علیم خان فلکی
یہ کیا ستم ہے کہ دنیا کے تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے لئے تو ہم استادوں اور تربیت گاہوں میں جانے کو لازمی مانتے ہیں اور اس علم سے متعلق ہر قسم کے کلی یا جزوی فروعی یا ثانوی حیثییت رکھنے والے ہر نکتے کو ازبر کرکے اس میدان میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ آج تک کسی کو آزاد کمپیوٹری کرتے یا آزاد کرکٹ کھیلتے نہیں دیکھا گیا لیکن شعر و ادب کو جانے کیوں لوگ ہر اصول سے آزاد کرکے سستے بازار میں لانا چاہتے ہیں۔
دراصل یہ سہل پسندی کی نفسیات ہے کہ جس طرح ہر شخص کرکٹر نہیں بن سکتا لیکن ِ بمجبوری ِ شوق گلی میں بچوں کے ساتھ دوچار شارٹ مار کر دل کی تسلی کر لیتا ہے اسی طرح غزل کہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی اس لئے بمجبوری ِشوق لوگ آزاد شاعری کر کے اپنا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ ان میں شاعری کا ذوق تو بھر پور ہوتا ہے لیکن اس کے لیے مطلوبہ فکری صلاحیتیں نہیں ہوتیں ، تخلیقی جوھر نہیں ہوتے اور نہ فرصت اتنی ہوتی ہے کہ وہ شعرکہنے کا فن سیکھیں ۔شعر سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا فن ہے شاعری فکر ِ رسا کی متقاضی ہے احساس و جذبات کی شدتیں چاہتی ہے لیکن ایک سطحی خیالات رکھنے والا عام آدمی اس سے محروم رہتا ہے اس لئے وہ شاعری جس سطح کی کر سکتا ہے اْسے آزاد شاعری کا نام دے دیتا ہے۔ آزاد شاعری چاہے وہ نظم ہو یا غزل یا نثری نظم وغیرہ شائد آزاد کی اصطلاح اس لئے گھڑی گئی کہ یہ پابندی ِ ردیف وقافیہ سے آزاد ہوتی ہے بلکہ بعض آزاد شاعری کرنے والے عروض کی پابندی بھی ضروری نہیں سمجھتے ، لیکن جس قسم کی آزاد شاعری پچھلے تین چار دہوں میں وجود میں آئی ہے جسکے علمبردار زیادہ تر یا تو ترقی پسند رہے یا جدیدیت پسند ، اسکا بغور مطالعہ کرنے کے بعدیہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ آزاد اس لئے کہلا تی ہے کہ اس کی اکثریت روایت سے آزاد ہے ،اخلاقیات سے آزاد ہے، جمالیات و رومانیت سے آزاد ہے ، غیر عقلی تراکیب استعارے تشبیہات اور ماڈرن آرٹ کیطرح ناقابل ِ فہم علامتیں ، جنسیات ، پست درجے کے عاشقانہ اور سفلی جذبات ، اختلاط ، ابہام یہی سب کچھ تو آزاد شاعری میں بھرا پڑا ہے۔ اگر چکہ اچھے سنجیدہ اور فکری مضامین بھی آزاد شاعری میں پیش کئے گئے ہیں لیکن ن ۔م۔ راشد ، میرا جی ، فیض احمد ندیم قاسمی علی سردار جعفری وغیرہ سے لیکر آج کے کسی بھی شاعر کی آزاد شاعری پڑھ ڈالئے اور بتائیے کہ کہیں کوئی رومانیت یا جمالیاتی کیفیت پیدا ہوتی ہے؟ شاعری وہ ہے جو سامع یا قاری کے دل کے تاروں کو چھیڑ دے اس کے احساس میں کوند لپکے عام سطحی سوچ سے کہیں بلند ایسا کوئی نکتہ شعر میں نظر آئے جسے عام آدمی سوچ تو سکتا ہے لیکن الفاظ نہیں دے سکتا۔ آزاد شاعری در حقیقت کمسن بچوں کا سا ایک انداز ِ بیان ہے ۔ ریل گاڑی ، پرندے ، اندھیرے، وغیرہ ان مضوعات پر دوچار سال کے بچے بھی اپنا جس انداز میں اظہار کرتے ہیں آزاد شاعری میں ذرا بہتر الفاظ اور بہتر ترکیبوں کے ذریعے اظہار کیا جاتا ہے مثال کے طور پر وزیر آغا کی یہ نظم لے لیجئے ۔
رس بھرا لمحہ
نہ جانے کن کٹھن راہوں سے ہوکر
آج میرے تن کے اس اندھے نگر میں
ایک پل مہماں ہوا ہے
رس بھرا لمحہ
سمے کی شاخ سے ٹوٹا
میری جھولی میں گرا
آج میرا ہو گیا
رس بھرا لمحہ
( سہ ماہی ترکش : جون 2004 ء )
حیرت شاعری پر نہیں ، حیرت وزیر آغا پر ہے کہ ادب میں یہ بہت بڑا نام ہے تنقید اور انشائیہ نگاری میں وزیر آغا نے ایک الگ تاریخ بنائی ہے ساختیات پر اتنا کچھ لکھا کہ خود گوپی چند نارنگ حیران ہیں کہ ان کا اچھالا ہوا سکّہ کیسے اتنی دور تک چل گیا؟ ویسے ساختیات خود ایک ایسا متازعہ موضوع ہے جو ہمیں تو لگتا ہے کہ اچھے اچھے سمجھدار ادیبوں اور دانشوروں کو ادب سے ہٹا کر ایک سنجیدہ نما غیر سنجیدہ بحث میں مشغول کر دینے کی ایک دانستہ شرارت ہے ۔ کاش وزیر آغا اپنا معتبر نثری میدان چھوڑ کر ایسی سطحی شاعری کے میدان میں ہاتھ نہ ڈالتے ۔ مذکورہ نظم میں جس قسم کی علامتیں یا استعارے ہیں وہ اس وقت تک سمجھ میں نہیں آتے جبتک ماڈرن آرٹ کی طرح آرٹسٹ خود ہی نہ بتائے ۔ اور نہ یہ شاعری فی نفسہ اپنے اندر کوئی داخلی کیفیت یا خارجی احساس کو لطف بخشنے والی ہے۔ اب آئیے اس کے مقابلے میں شکیل بدایونی کے اس شعر کو لیجیے ۔
آج اک اجنبی سے نگاہیں ملیں صرف اک لمحہ ء مختصر کے لئے
زندگی اس طرح مطمئن ہو گئی جیسے کچھ پا لیا عمر بھر کے لئے
بات اْسی لمحے کی ہے لیکن دونوں کے انداز ِ بیاں کا تقابل کیجئے شکیل کے لمحے کو آدمی اپنے اندر محسوس کرتا ہے خود بھی سرور بھری یادوں میں کھو جاتا ہے۔ جبکہ وزیر آغا کا رس بھرا لمحہ قاری کے ذوق اور احساس کو اسقدر پھیکا کر دیتا ہے کہ قاری جھلاّ جاتا ہے کہ بھلا یہ کونسا لمحہ ہے کیسا لمحہ ہے ؟ اس رس بھرے لمحے میں واقعی رس گھولنے کے لئے جس لفظی آہنگ اور گہرائی وگیرائی کی ضرورت ہے وہ نہ وزیر آغا کے پاس ہے اور نہ اسطرح کی شاعری کرنے والے کسی شخص کے پاس۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ قاری کی توجہہ حاصل کرنے کے لیے نظموں کا عنوان بڑا دلچسپ منتخب کرتے ہیں یہ تو نظم پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا اْس میوہ فروش کی طرح جو میٹھا آم ۔ میٹھا آم پکار پکار کر فروخت تو کرڈالتا ہے لیکن بعد میں بے چارے خریداروں کو پتہ چلتا ہے کہ وہ آم کتنے میٹھے تھے۔ اسی طرح ایسے کئی بے شمار رس بھرے لمحے مختلف دلچسپ عنوانات سے آ ئے دن اخبارات رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن آج تک کوئی رس بھرا لمحہ شکیل ، خمار، غالب و اقبال کی گرد تک نہ پہنچ سکا۔
آزاد شاعری کے وکیل آزاد شاعری کے ذریعے علامت نگاری استعارہ نگاری اور تشبیہ سازی کے فن کو نکھارنے کا دعوی کرتے ہیں بلکہ بعض تو اس کے موجُد ہو نے کا بھی ۔ دراصل علامت اور استعارے ہر زبان کے شعر و ادب میں موجود ہیں اور اردو شاعری میں تقریبا دو صدیوں سے موجود ہیں لیکن آزاد شاعری میں یہ اس لئے انوکھے سمجھے جاتے ہیں کہ یہ علامتیں اور استعارے اردو زبان یا کلچر سے نہیں لئے جاتے بلکہ انکاسرچشمہ مغربی ادب ہے جن لوگوں نے جیسے ستیہ پال آنند وغیرہ ہیں ۔ راست مغرب سے مطالعہ کرکے اس نہج کو اردو میں رائج کرنے کی کوشش کی ایسے چند ایک ہی لوگ ہیں باقی بھیڑ اندھی تقلیدکرنے والوں کی ہے جنھوں نے نقل کو بھی عقل کی ضرورت ہے کے اصول کو نظر انداز کر تے ہوے عجیب و غریب احمقانہ علامتیں اور استعارے بنا ڈالے اور سورج کو مرغ کی چونچ پر لا کھڑا کیا ۔یہ لوگ ایلیٹ وغیرہ کو سب سے زیادہ حوالہ بناتے ہیں۔یہ یاد رہے کہ ایلیٹ کی نظموں کی اکثریت منظوم ڈراموں پر مشتمل ہے اور ڈرامے میں پورا ڈائلاگ شعر میں نہیں کہا جاسکتا اور نہ اسکی ضرورت ہے بلکہ ایک عام اندازسے ہٹ کر کچھ انوکھا پن پیدا کرنا لازمی ہوتا ہے اسلئے انہوں نے اپنی زبان کو ایک نثری شاعری کے طور پر استعمال کیا لیکن اس نقل کیوجہ سے جو رس بھرے لمحے اردو میں پیدا ہوگئے نہ وہ شاعری کہلا سکے نہ نثر۔بلکہ یوں کہوں تو بیجا نہ ہوگا کہ ان لمحوں کی حیات انہی چند لمحوں تک ہے جب تک آپ یہ رسالہ یا اخبار اپنے ہاتھ میں لیکر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالتے ہیں اور پھر ردی کے حوالے کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ولی دکنی کے دور یا اس سے قبل کے دور میں اردو شاعری جس ارتقاء کی ابتدائی منزلوں سے گزر رہی تھی اور جس قسم کا ابہام اسمیں پایا جاتا تھا آج مغربی شاعری اسی اسٹیج میں ہے اور ہمار ے بیچار ے آزاد شعراء اسی دور ِ ابہا م میں کھو کر اپنے آپ کو ترقی پسند یا جدیدیت پسند سمجھ رہے ہیں۔اس حقیقت کی گواہی کیلئے آپ کو آج کی شاعری اور قدیم اردو شاعری دونوں کو پڑھنا ہوگا۔
سوا ل یہ ہیکہ آزاد شاعری کی اسقدر ہمت افزائی کیسے ہو گئی ؟
ترقی پسند اور جدیدیے کوئی اہم موضوع نہ ہوتے ہوئے بھی سب سے بڑا موضوع کیسے بن گئے؟۔ دراصل جنگ آزادی کے دوران جب ترقی پسندوں کی پہلے پہل آواز اٹھی تو یہ نئی آواز تھی، نئی ہیروئن ہو کہ نیا کرکٹر ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں،کچھ تو سیاسی پارٹیوں کی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں کارکن درکار ہوتے ہیں پھر ان کارکنان کی دلچسپیوں اور حوصلوں کو باقی رکھنے کے لئے ہوم ورک بھی دینا ضروری ہوتا ہے ۔اسلئے ترقی پسند اشتراکیت کے علمبرداروں نے ہر شخص کو کسان ،مزدور ، درانتی ،مظلوم ، مدح ِاشتراکیت و مخالفت ِسرمایہ داری جیسے موضوعات پر لکھنے کی ترغیب دی اور ایک دوسرے سے مقابلے میں مشغول کردیا ۔سجاد ظہیر ، مخدوم وغیرہ نہیں جانتے تھے کہ ادب کے پس ِپردہ جو نظریات اور قوتیں کام کر رہی ہیں وہ کتنی کمزور اور کھوکھلی ہیں اْنہیں تو ترقی پسند ادب و ادیب و شعراء درکار تھے اْس وقت اْنکے پاس وہ علم وادب سے بہرہ ور افراد نہیں تھے جو کارکنان کی تربیت کرتے اسلئے جو بھی لکھا گیا ،افسانہ ہو کہ ڈرامہ نثری نظم ہو کہ آزاد غزل سب کی پیٹھ ٹھونکنا اور اسکی دلجوئی کرنا انکے لئے لازمی تھا۔ اصلاح کرنے بیٹھتے تو پارٹی کے دوسرے کام کون کرتا ؟ ایک کام ترقی پسندوں نے جو اہم اور تاریخی کیا وہ تھا میڈیا پر قبضہ ، میڈیا ہر دور میں نیو کلیرطاقت سے زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ان لوگوں نے بڑی محنت کے ساتھ اخبارات و رسائل اور ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کیا ۔ ادیب و شاعر کی کمزوری ہردور میں شہرت پسندی رہی ہے۔کسی کی کوئی تخلیق شائع ہو جاے یا تصویر چھپ جائے تو بیچارہ شام تک عید مناتا ہے اور اگر کسی کو ریڈیو پر آنے کاموقع مل جائے تو گویا اس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑدئیے۔ اور اگر کسی کو پارٹی فنڈ سے بمبئی دہلی یا ماسکو کا خرچہ دیکر بلایا جائے تو گویا اس نے سکندر آعظم کی طرح پورا ملک ہی فتح کرلیا ۔
یہی وہ دور تھاجب آزاد غزلوں آزاد نظموں وغیرہ کی گونج سنائی دینے لگی تھی۔ چونکہ ہر اخبار رسالے یا ریڈیو اسٹیشن میں انہی کے آدمی بیٹھے ہوتے جو کامریڈ کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور اس طرح ان کی ہر لغو تحریر بلا کسی تاخیر کے شائع یا نشر ہو جاتی اور دوسری طرف اہل ِ ہنر کی تخلیقات منہ دیکھتے رہ جاتیں،اسی دور میں کیفی ، جاں نثار اختر ، اختر الایمان ، خوا جہ احمد عباس، وغیرہ نے فلموں میں داخلہ لیا ، غریبوں مزدوروں اور مظلوموں کو امیروں کے استحصال سے آزاد کروانے والوں نے خود امیری کا راستہ ڈھونڈ لیا۔
میر و غالب کو کہاں جیتے جی شہرت مل سکی
فلم اور ٹی وی نے مجھ کو زندہ غالب کردیا
اسطرح آزاد حضرات میڈیا پر قابض ہوئے اور پابند بے چارے منہ لٹکائے دیوان خانوں میں مشاعرے پڑھتے رہے، پھر ترقی پسندانجمن جو در اصل ایک "انجمن ِستائش ِ باہمی انجمن" تھی جب اتنی بڑی تعداد میں کارکنان ایک دوسرے کو سراہتے تو ہر نا پختہ شاعر و ادیب کے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا۔ اسکی ہر معمولی تخلیق کو گویا سند حاصل ہو جاتی۔ جس طرح ایک مولوی دو چار تقریریں کرنے کے بعد اپنے آپ کو بہت بڑا عالم و قائد سمجھنے لگتا ہے اسی طرح نفسیاتی طور پر یہ کچے پکے شاعر و ادیب اپنے آپ کو غالب و اقبال کے استاد سمجھنے لگے اور انکی تعریف میں بھی خوب لکھا جانے لگا۔ بلکہ پارٹی ڈسپلین کا تقاضہ تھا کہ ایک دوسرے کی خوب مدح سرائی کریں اس طرح ترقی پسند حضرات ایک موضوع بن گئے ،انکا تقریباً پندرہ سال زور و دبدبہ رہا ،چونکہ یہ ایک ہنگامی حالات میں اٹھنے والی تحریک تھی اس لئے ایسی تحریکوں کی عمریں زیادہ نہیں ہوا کرتیں لوگ جسطرح ایک فیشن سے اکتا جاتے ہیں اسی طرح ان وقتی تحریکوں سے بھی اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسکا فائدہ کسی اور کو پہنچتا ہے جسطرح آپ سیاست میں دیکھتے ہیں کہ ایک پارٹی سے لوگ بیزار ہو جاتے ہیں تو کسی متبادل کی تلاش اور تغیر کی کوشش میں کسی بھی ایرے غیرے کو ووٹ ڈال دیتے ہیں، اسی طرح ترقی پسندوں کے زوال کا فائدہ جدیدیت پسندوں کو پہنچا حالانکہ یہ ترقی پسندوں سے کہیں زیادہ کمزور غیر اساسی اور غیر سنجیدہ نظریہ پر قائم چند منتشر الخیال شاعروں اور ادیبوں کی تحریک تھی لیکن واقعاتی طور پر ترقی پسندوں کی وارث ثابت ہوئی ۔ جدیدیت کی شہرت میں ان کا اپنا کوئی ہاتھ نہیں تھا بلکہ یہ قدرت کی مہربانی تھی کہ متبادل کوئی نہیں تھا لوگ نشے کے عادی ہو چکے تھے اسلئے ترقی پسند نہ سہی جدیدئے ہی سہی ،کچھ نہ کچھ تسکین کا سامان تو بہرِ حال میسر تھا۔ ترقی پسندوں سے جو بیزارگی تھی وہ جدیدیت کے لئے حمایت کا ثبوت نہیں تھا بلکہ ایک مجبوری تھی۔کوئی شکست خوردہ جماعت کا ساتھ نہیں دیتا اسلئے اب زیادہ تر جھکاؤ جدیدیت پر ہونے لگا لیکن اب جب کہ دو دہے گزر چکے ہیں لوگ سوچنے لگے ہیں کہ ترقی پسندوں اور جدیدیوں سے ادب کو کیا ملا ؟ آج بھی ادب میں اگر باقی رہنے والی تخلیقات ہیں تو وہ غالب و اقبال ، میر و درد و مومن ہی کی ہیں یا چند ایک وہ غزلیں جو ترقی پسندوں کے پاس مل جاتی ہیں جنکا انکے نظریات سے کوئی خاص واسطہ بھی نہیں لیکن یہ غزلیں بھی خمار ،شکیل ،شمیم کی غزلوں کے مقابلے میں کوئی قابل ذکر مقام نہیں رکھتیں۔ اور اگر رکھتی بھی ہیں تو ان کا سہرا مہدی حسن نو ر جہاں اور محمد رفیع وغیرہ کے سر ہے ۔
شاعری اگر منصب شناس ہو تو جزو ِ پیغمبری ہے ورنہ جزوِ شیطانی ہے کسی بھی زبان کی شاعری ہو وہ اسکے کلچر مذہب اور تاریخ سے بہرحال گہرا واسطہ رکھتی ہے مغرب زدہ آزادی پسندوں نے ادب میں وہ چیزیں برآمد کرنے کی کوشش کی جو ہرگز اردو کے کلچر سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ ماہنامہ شاعر میں ایک آزاد نظم چھپی تھی بلکہ اکثر چھپتی ہی رہتی ہیں جس میں ایک بن بیاہی ماں کے جذبات کا اظہار کچھ یوں تھا گویا وہ لمحہ لمحہ عبادت کر رہی ہو۔ اسی طرح آزاد شاعری کے نام پر ہر رسالے میں ایسی نگارشات شائع ہوتی رہتی ہیں اسی لئے اس شاعری کو کسی طرح بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔شاعر قوم کا ضمیر ہوتا ہے اگر ضمیر کی گواہی کے ساتھ شاعری ہو تو وہ شاعری بیوی بیٹی بہن کے لئے بھی مسحور کن ہوتی ہے بلکہ رہنما بھی ہوتی ہے ورنہ ایسی شاعری وجود میں آتی ہے جسے کسی اور کی بیوی بہن یا بیٹی پر چسپاں کرکے مزہ تو لوٹا جاسکتا ہے لیکن جب وہی شاعری کسی اور کی زبانی خود شاعر کی بہن یا بیٹی تعریف میں پیش کی جاے تو شاعر کی شرم و حیا اور خوداری کا جنازہ نکل جاتا ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ شاعری میں اپنے تہذییبی و تاریخی اقدار کا مکمل خیال رکھا جائے ۔ آپ کی تہذیب خود آپ کے آبا ء و اجداد کی شناخت قایم کرتی ہے اور آنے والی نسلوں کی تہذیبی راہ بھی متعین کرتی ہے ۔آج کی آزاد اردو شاعری جو کہ مکمل مغرب یا چین و جاپان کی بے ربط شاعری کا چربہ ہے اسے دیکھ کر بے اختیار وہ لطیفہ یاد آجاتا ہے کہ ایک چڑیا کے جوڑے نے ایک کچوے کو بھی پال رکھا تھا چڑیا کے بچے جب بڑے ہوکر پھدکنے لگے اور پھدکتے پھدکتے گھونسلے سے باہر نکل کر اڑان بھرتے اور دوسری ٹہنی پر جابیٹھتے تو کچوے کا بچا بھی تقلید کرنے لگا اور پھدک پھدک کر اڑنے کی کوشش کرنے لگا اوراڑنے کی کوشش میں بار بار گرنے لگا ہر بار وہ زمین پر گرتا اور رینگتا ہوا واپس آتا اور اڑنے کی کوشش میں دوبارہ زمین پر گر پڑتا یہ دیکھ کر چڑے نے چڑیا سے کہا کہ اب وقت آگیا ہے ہم اس کو یہ بتادیں کہ تم اصلاً چڑیا نہیں بلکہ پالکڑے کچوے ہو ، آج کی مغرب کے نقال خود ساختہ آزاد شعراء نے بھی کچھ نیا کر گزرنے کی آرزو میں ادب کو ڈرامہ بنا دیا، اور شعر و ادب کی ہئیت ہی بدل ڈالی علامت رمزیت استعارہ گری اور اشاریت پر اتنا زور دیا کہ اصل مفہوم کے ساتھ ساتھ ادب کی چاشنی اور رومانیت خنم ہو گئی۔
اگر آزاد شاعری کے طرفدار ایمانداری اور غیر جانبداری سے آج تک کی پوری آزاد شاعری جس میں نظم ، غزل نثر وغیرہ سب شامل ہیں ان کا بغور مطالعہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مجموعی طور پراسمیں خدا بیزاری مادہ پرستی اور عشق کے پردے میں فحش سفلی جذبات کو تقویت دی گئی خدا بیزار اور اخلاق بیزار فلسفوں اور فلسفیوں کی جگالی کی گئی اس شاعری میں "ذات" اصل محور رہی ایسی ذات جو نہ ادبی و تہذیبی و ثقافتی اقدار میں دلچسپی رکھتی ہے نہ تاریخ و تحقیق میں اور نہ اسے عرفان ذات کا شعور حاصل ہے تنہائی اس کا محبوب مشغلہ ہے ذات ہی متکلم ذات ہی مخاطب ذات ہی سامع اور ذات ہی قاری ۔ اسی لئے ایسی تخلیقات باہر کی دنیا میں چالیس پچاس سال بھی اجنبی ہی رہیں ۔نہ یہ شاعری کا حوالہ بن سکیں نہ کوئی ضرب المثل ۔ اور نہ کسی مشاعرہ میں انہیں عزت و مقام مل سکا ۔ یہ اور بات ہے کہ اس قبیل کے شعراء او ادباء اس کو زندہ رکھنے کے لیے بحث و مباحثے ضرور کرتے ہیں لیکن وہ شاعری ہی کیا حسے ایک عام ذہن دل سے قبول نہ کرے ۔ آزاد شاعری کا خواص میں چاہے خوب چرچا ہو لیکن عم انسانوں میں اگر اس کو قبولیت نہ ملے تو یہ نہ صرف وقت بربادی ہے بلکہ قتل عام کی طرح کا جرم بھی یعنی ان صلاحیتوں کا قتل جو اگر کسی تعمیری اور مثبت فکری پیعام پر لگیں تو پوری قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہوتا ہے چونکہ ایک طاقتو ر ادب قوم کی تعمیر میں اہم رول ادا کرتا ہے اس لئے ہر لغو ادب قوم کی تعمیری فکروں کو ضائع کرنے والا ادب ہے بد قسمتی سے اس چل چلاو میں اچھے اورسمجھدار شعراء بھی کود پڑے جنھیں یا تو اپنے کلام کو ضخیم کرکے شائع کروانے کی جلدی تھی جو عموماً ہر شاعر کو ہوتی ہے۔ یا پھر ہر صنف میں غیر ضروری استادی دکھانے کا شوق ۔
آزاد شاعری کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ شاعر ہیں : افتخار امام صدیقی
اور نظم کا عنوان ہے : ایک نئی آواز ۔
رکھ دے
میری یاد داشت میں
وہ سب کچھ
جو تونے
کسی کوبھی عطا نہیں کیا
اور وہ بھی
جو تیرے پاس نہیں
مگر
خالق ہے تو
روح کی سچائی کا
تجسس تمام تر
لوح ِ محفوظ سے ماورا
یہ نثر ہے یا نظم ہے یا غزل یا کیا ہے ، یہ تو افتخار امام ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ رسالہ "شاعر" کے امام ہیں اور دنیا بھر کی آزاد شاعری انہی کے رسالے شاعر میں جمع ہوتی ہے۔اس لئے امامت کا تقا ضہ یہ ہے کہ وہ عام روش سے دو قدم آگے بڑھ کر شاعری کریں اسلئے اب اس کی تفسیر وہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں کے وہ کونسی چیز ہے جو خالق کے پاس نہیں ہے لیکن مخلوق کے ذہن میں موجود ہے اور وہ خالق سے اس کا ڈیمانڈ اس طرح کر سکتا ہے گویا خالق کسی فیکٹری کا مالک ہے جو کسٹمر کی مانگ پر نیا موڈل بنا کر فراہم کر دیتا ہے اور اس نظم کی آخری تین سطریں تو خالق کا قد مخلوق سے کتناچھوٹا ہے ثابت کر رہی ہیں۔محترم کی روح کی سچائی کا تجسس ان حقیقتوں سے بھی بہت آگے کہیں ہے جہاں تک لوح َ محفوظ بھی نہیں جاتی، کیا یہ اسی طرح کی بچکانہ سوچ نہیں ہے کہ ایک معصوم بچہ اپنے ابو سے کہتا ہے ، آپ کو تو کچھ نہیں معلوم۔
ہر ادبی رسالے میں آزاد شاعری کی بھرمار کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اردو کے قاری بہت تیزی سے کم ہو رہے ہیں، زبان کا تعلق صرف بول چال اور فلمی گیتوں تک رہ گیا ہے، چونکہ اردو کا معاش سے بھی تعلق ختم ہو چکا ہے اسلئے انگریزی یا پھر علاقائی زبانیں غالب ہیں، لوگ سوچنے بھی انگریزی میں لگے ہیں اور اسے کسی طرح بیان اردو میں کرنا چاہتے ہیں لیکن بیان و اسلوب کے فن سے واقف ہیں نہ سیکھنے کے ذرائع ہیں اسلئے اخبار و رسائل کو عام آدمی تک پہنچنے کے لئے اپنا ادبی معیار کم کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔ نتیجتاً بڑے شاعر ہوں کہ وزیر آغا جیسے تنقید نگار انہوں نے ضروری سمجھا کے بجائے عام آدمی کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی جاے، جیسا گاہک ویسا مال کی بنیاد پر سبھی نے آزاد شاعری کا ہراج ِعام لگا دیا ،یوں بھی رسالوں کی فروخت انکی بقا ء کے لئے لازمی ہے اسلئے لگے غزل پر تنقیدیں کرنے۔ اس لئے کہ آزاد شاعری کے لیے اس وقت تک راہ نہیں بنیت جب تک کہ غزل کی اہمیت کو نہ گھٹایا جائے یا کم سے کم غزل کے برابر کا درجہ نہ دے دیا جائے ۔ یہ صحیح ہے کہ غزل میں بھی آج نہ نئے موضوعات ہیں نہ تنوع نہ جمالیات نہ رومانیت ،لیکن اس میں غزل کا قصور نہیں افراد کا قصور ہے جو حالات کی کشاکش کے شکنجے سے باہر نکل کر تخیل کی ترویج کرنا نہیں چاہتے عام روش یہ ہے کہ ردیف قافیہ باندھا اور غزل مکمل کی۔موضوعات وہی جیسے محبوب کا گلشن میں آنا،دوستوں کا فریب ،زمانے کے ستم یا پھر حکمرانوں کا ظلم وغیرہ۔
لیکن جہاں تک غزل کا تعلق ہے یہ دنیا کی تمام اصناف سے منفرد صنف ہے۔ آزاد شاعری کی تائید میں یہ کہا جاتا ہے کہ مغرب کی تقلید نہیں بلکہ عربی فارسی میں اسکے برسہا برس پہلے تجربے ہو چکے ہیں، یہ ہو سکتا ہے سچ بھی ہو لیکن غزل نے ولی دکنی سے لے کر آج تک جو سفر طئے کیا ہے اسکا شعری آہنگ ایک قلعہ کی طرح مضبوط ہو چکا ہے یہ دو مصرعوں میں بڑی سے بڑی نظم کے بنیادی خیال کو سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے، آزاد شاعری کی ضرورت اس وقت پیش آسکتی ہے جب شاعر کو مختصر الفاظ میں اپنے خیال کو سمیٹنے کا فن نہ آتا ہو، مثال کے طور پر فسادات کے موضوع پر طویل نظمیں لکھی جاچکی ہیں لیکن تمام موجودہ موضوعاتی آزاد نظموں پر غزل کا یہ شعر بھاری ہے۔
کل مرگیا تھا جن کو بچانے میں پہلے باپ
اب کے فساد میں وہی بچے نہیں رہے
(نواز دیوبندی)
یا خمار کا یہ شعر کہ :
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے ز ما نہ نئی ر و شنی ہے
غزل اپنے دائرے میں دنیا کی تمام اصناف سے منفرد اور اجمالی اظہار کے لحاظ سے دنیا کی شاعری میں سب سے بلند مرتبہ رکھتی ہے جسکی ایک معمولی مثال ھندی فلم انڈسٹری بھی ہے جسکا ٹائٹل اگر چہ کہ ھندی کا ہوتا ہے لیکن ڈائلاگ اور نغمے اردو میں ہوتے ہیں جسکی وجہ سے نہ صرف ہندوستا ن کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں بلکہ عالمی فلم انڈسٹری میں تمام زبانوں کے مقابلے میں کئی درجہ زیادہ مقبولیت اور منافع کما رہی ہے۔ اگر ان گیتوں سے غزل کا آہنگ نکال کر ہندی یا کسی دوسری زبان کوٹھونس دیا جاے تو مجال ہے کہ ایک ہفتہ سے زیادہ فلم چل سکے۔ یا غزل انڈسٹری کودیکھ لیجئے وہ مہدی حسن ہوں یا غلام علی ہوں یا جگجیت سنگھ اگر غزل کو چھوڑ کر کسی آزاد نظم یا آزاد غزل کو گا کر دیکھیں پھر ان کی مقبولیت کا گراف کس طرح گرتا چلا جا ئے گا اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ البتہ آزاد شاعری قوّالی یا پاپ میوزک ڈسکو وغیرہ کے لئے انتہائی موزوں ہے اور خالص کلاسیکل موسیقی کے لیے تو آزاد شاعری موزوں ترین ۔ کیوں کہ اس میں راگ کے وزن کی اہمیت ہوتی ہے شعر کے وزن یا معنوں کی حیثیت ثانوی درجہ رکھتی ہے ۔
یہ صحیح ہے کہ شاعری پر قدغنیں نہیں لگائی جا سکتیں ، احساس اور خیال ہر شخص کے حصے میں نہیں آتا یہ بھی ایک الہام ہے اور ہر احساس اپنے اظہار کا وسیلہ ڈھونڈتا ہے اور احساس کے اظہار کا سب سے بڑا وسیلہ قلم ہے جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے احساس اور تخیل کا ہنر عطاء کیا ہے وہ قوم کے لئے ایک نعمت ہے اس شخص پر قد غنیں لگا کر فکر اور تخلیقی صلاحیتوں سے محروم نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جسطرح کسی بھی شخص کو کسی بھی پیشے یا علم و فن میں مہارت حاصل کرنے اور نام اونچا کرنے کی خواہش سے نہیں روکا جاسکتا اسی طرح کسی کو قلم کے کارواں میں بھی شامل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا لیکن جہاں دوسرے پیشوں یا علوم و فنون میں تربیت اور اصولوں کی پابندی لازمی ہوتی ہے اسی طرح ادب و شاعری میں بھی لازمی ہے ہر اہل ِقلم کو پہلے محنت کر کے انھیں سیکھناچاہیے۔ آنگنائے غزل میں سب کچھ ہے داخلی و خارجی حسیت ہے اورحسن و عشق کے نازک جذبات ہیں زمانے کے ستم دوستوں کے کرم ،حمد و نعت ، و مناجات ہی نہیں شکوہ اور جواب ِشکوہ جیسی انقلابی فکر بھی موجود ہے صحیح شعر گوئی پر وہ محنت کریں ۔بجائے اسکے کہ سانٹ، ہائکو، ترائکے، ماہئے ،گیت ،دوہے نثری نظمیں آزاد غزلیں وغیرہ جیسی عارضی اور پھیکی تخلیقات کہی جائیں صحیح غزل اور صحیح نظم پر توجہ دی جاے یا نثر کا شوق ہو تو ڈرامہ اور افسانہ نگاری ناول ناولٹ اخاکہ نگاری فکاہیہ وغیرہ پر محنت کریں ،تاکہ ادب بھی باقی رہے اور وسیلہء اظہار بھی۔ہر اچھے خیال کے اظہار کے لیے نظم یا غزل کہنا ہی لازمی نہیں بیشتر آزاد شاعری میں بعض اوقات بڑے اچھے اچھے خیال بھی نظر آجاتے ہیں جو اگر کسی نثر کی صنف میں ہوتے تو کہیں زیادہ بامعنی اثر انگیز اور دیر پا ہوجاتے مگر پتہ نہیں کیوں لوگ اسے آزاد شاعری میں بند کر کے ابہام میں غرق کردیتے ہیں اور ایک اچھے خیال سے دنیا محروم رہ جاتی ہے

No comments:

Post a Comment