Wednesday, March 2, 2011

ابراہیم رضوی۔لندن - قیصرتمکین گذشتہ نصف صدی سے برابر افسانوی دنیا میں لوگوں کو چونکاتے اور اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔

2011/2/28 Rashid Ashraf <zest70pk@gmail.com>
قیصرتمکین گذشتہ نصف صدی سے برابر افسانوی دنیا میں لوگوں کو چونکاتے اور
اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔
ابراہیم رضوی۔لندن



قیصرتمکین گذشتہ نصف صدی سے برابر افسانوی دنیا میں لوگوں کو چونکاتے اور
اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔ ایک ایسے دور میں جب ناولوں کی بھر مار تھی اور
ادب میںجمود کے نعرے لگ رہے تھے وہ مستقل لکھتے رہے۔ان کی ۳۱ کتابیں شائع
ہوچکی ہیں ان میں افسانوں کے مجموعے تنقیدی مضامین اور دیگر موضوعات پر
مضامین شامل ہیں ان کا پہلامجموعہ ”جگ ہنسائی“ ان کے زمانہ طالب علمی میں
۸۵۹۱ءمیںادارہ فروغ اردو لکھنوکی طرف سے شائع ہوا تھا اس پر یوپی حکومت
نے نقد انعام بھی دیا تھا۔صف اول کے افسانہ نگاروں میں بعض سیاسی وجوہ سے
اور خاص طور پر ترقی پسند تحریک کے ایک خاص دور انتہا پسندی کی بنا پر
کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی اور خواجہ احمد عباس کے نام اتنے نمایاں
رہے کہ بہت سے لوگ اکثر بھول جاتے ہیں کہ اصل میں جدید افسانے میں منٹو،
احمد ندیم قاسمی اور حیات اللہ انصاری زیادہ بڑے فنکار ہیں اور زندگی کے
مشاہدات اور روز مرہ کی زندگی کے بعض غیر مقبول پہلووں پر ان تینوں کی
نگاہ جتنی تیز اور موثر ہے وہ احمدعباس اور کرشن چندر کی گرفت سے بہت دور
ہے۔ اس بارے میں قیصر تمکین منٹو سے سب زسے زیادہ متاثر تھے۔ ان کے جنسی
موضوعات سے نہیں بلکہ فن کی شدت اور مشاہدے کی بے پناہ سفاکی کی وجہ سے
۔قیصرکا کہنا تھا کہ ”منٹو پہلا فرانسیسی ادیب ہے جو اردو میں پیداہوا۔“

فن افسانہ نگاری میں بھی لکھنو کا بڑا نمایاں حصہ رہا ہے۔ پریم چند کو
لکھنو اسکول کے تھے ہی (ترقی پسند مصنفین کی اساسی کانفرنس منعقدہ لکھنو
۶۳۹۱ءکی صدارت پریم چند ہی نے کی تھی)ان کے بعد اعظم کریوی پنڈت سدرشن،
محمد علی ردولوی علی عباس حسینی ،حیات اللہ انصاری، قرة العین حیدر اور
شوکت علی صدیقی کے نام آتے ہیں۔ ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور نے بھی اپنی
زندگی کا بڑا حصہ لکھنو میں ہی گزارا۔ خواجہ احمد عباس اپنے کو کسی خاص
دبستان سے وابستہ نہیں کرتے۔ مگر زمانہ طالب علمی میں علی گڑھ کے دوران
قیام میںوہ بھی زیادہ وقت لکھنوی ادیبوں اور تحریکوں کی معیت میں گزارتے
تھے۔ ان کے علاوہ بہت سے لوگ تھے جو لکھنوکی محفلوں میں ہی سرگرم تگ و
تاز رہے تھے ان میں نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری اور اکبر الہ آبادی
کے نام آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہی کیا۔
بعد کی نسل میں لکھنو اسکول سے متعلق کچھ بہت ہی نمایاں نام ہیں مثلاً
رام لعل، قیصر تمکین، قاضی عبد الستار اور رتن سنگھ۔

رام لعل اور رتن سنگھ لکھنو میںہی سکونت پذیر رہے۔ قاضی عبد الستار علی
گڑھ جابسے۔ قیصر تمکین نے شروع زندگی لکھنو ہی میں گزاری اور تعلیم مکمل
کرنے کے بعد دہلی چلے گئے جہاں سے وہ ۵۶۹۱ءمیں ترک وطن کرکے برطانیہ
آگئے۔ اس لئے وہ اپنے کو کسی طرح لکھنو اسکول سے وابستہ کئے جانے کے حامی
نہیں تھے۔ قائل وہ اردو دنیا میں صرف منٹو ،عصمت چغتائی اور شفیق الرحمن
کے تھے اور انہیں اپنا پیش رو اور معنوی گرو مانتے تھے۔ مگر ان کے کہنے
سے کیا ہوتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ چالیس پینتالیس سال پہلے لکھنو چھوڑنے
کے بعدبھی وہ غیرشعوری طور پر لکھنوی ہی رہے۔ اگر ان کے شعور پر منٹو،
احمد ندیم قاسمی اور عصمت چغتائی کے اثرات ہیں تو غیر ارادی طور پر ان پر
پریم چند سے لے کر شوکت صدیقی تک کا اثرنظر آتا ہے مگر یہ بات وہ اتنے
واضح طور پر ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔

میں نے دبستان لکھنو کا ذکر محض کسی بے تکی تخصیص یا درجہ بندی کے لئے
نہیں کیا ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ لکھنو کے تہذیبی و لسانی اثرات اور منٹو
اور قاسمی کی صداقت تسلیم کرتے ہوئے وہ اردو افسانے میں ایک ایسا امتزاج
پیش کرتے ہیں جو خود قرة العین حیدر کے یہاں بھی اتنا واضح اور بے لوچ
نہیں ہے۔ ان کی اس خوبی پر جلا ہوئی ہے ان کے وسیع مطالعے سے جو انہوںنے
روسی، فرانسیسی اور چینی افسانوی ادب سے واقفیت کے سلسلے میں بہت طالب
علمانہ طور پر کیا ہے۔ ان کے موضوعات کاتنوع ان کی تکنیکی اپج ان کی زبان
کی لطافت اور پھر ان کے مطالعے اور مشاہدے کی رنگ آمیزی نے ان کوایسی
ممتاز اور منفرد جگہ عطا کی ہے جو ان کو لکھنو اسکول سے ہی نہیں بلکہ
تمام اردو بزم افسانہ نگاری سے ممتاز کرتی ہے۔

ادب کا ذوق قیصر تمکین کو ورثہ میں ملا ہے۔ ان کے گھر میںپچھلی تین، چار
پشتوں سے ادب اور شاعری کا ذوق چلاآرہا ہے ان کے والد مشیر احمد علوی
ناظر کاکوروی ایک ممتاز ادیب اور نقاد تھے ان کے دادا امیر احمد علوی نے
انیس، بہادر شاہ ظفر، اور مثنویات پر جو تحقیقی کام کیا ہے اس سے آج بھی
لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ حسان الہند محسن کاکوروی جن کا نعتیہ قصیدہ، ”سمت
کاشی سے چلا جانب متھرا بادل“ تمام ہندوستان میں مشہور تھا امیر احمد
علوی کے نانا تھے۔

قیصر کے بڑے بھائی حسین مشیر علوی ایک ممتاز شاعر تھے قیصر کے چھوٹے
بھائی احمد ابراہیم علوی اتر پردیش کے ایک بڑے اور موقر اخبار ”آگ“ کے
مدیر اعلیٰ ہیں۔

قیصر نے بچپن سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں ان کی پہلی کہانی
۹۴۹۱ءمیں لاہور کے مشہور رسالے عالم گیر میں شائع ہوئی تھی اس وقت ان کی
عمر زیادہ سے زیادہ بارہ تیرہ سال کی ہوگی۔ بہت سے افسانے انہوںنے فرضی
ناموں سے لکھ کو مختلف رسالوں کو بھیجیں اس ڈر سے کہیں والدین کی ڈانٹ
پھٹکار نہ سننا پڑے۔

یہ کہنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ قیصر بہتر ادیب اور افسانہ نگار ہیں
یا بہتر صحافی ہیں۔ صحافت بطور پیشہ انہوں نے ۴۱ سال کی عمر سے اختیار کی
ابتدا اردو اخباروں سے کی اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے لندن کے ٹائمز
کے شعبہ ادارت تک پہونچ گئے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جو کسی ایشیائی کو شاذ و
نادر ہی ملتا ہے۔لیکن پھر بھی میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صحافی کی
بہ نسبت ادیب غالب رہتا ہے۔ اس کا ثبوت ان کی کتاب ”خبر گیر“ ہے۔ بظاہر
تو وہ ایک صحافی کی کہانی دنیائے صحافت کے شب و روز اور صحافیوں کی
مصروفیات اور زندگی کے پیچ و خم کی داستان ہے لیکن در اصل اسلوب بیان کی
شگفتگی ، زبان پر عبور اور ان کے عمیق مشاہدے نے ”خبر گیر“ کو سوانح سے
بلند تر کرکے ادبی رنگ دے دیا ہے۔ قیصر تمکین بہت بے باکی اور ایمانداری
سے اپنی بات کہنے کے عادی ہیں۔ اپنی یا اپنے خاندانی کی کمزوریوں کا ذکر
کرتے ہوئے انہیں کوئی حجاب نہیں آتا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ”والد کی ماہانہ
تنخواہ ایک چپراسی کی تنخواہ سے بھی کم تھی۔ اس پر مشکل یہ کہ وہ رشوت
لینے کے قائل نہیں تھے۔ اور ان کاپورا محکمہ رشوت پر چلتا تھا۔ ان کا
کہنا یہ تھا کہ حلال کی کمائی خواہ کتنی قلیل کیوں نہ ہو اس میں بڑی برکت
ہوتی ہے۔(ہم نے اپنے گھر میںکبھی کوئی برکت نہیں دیکھی) ایک بار عید کے
دن ہمارے گھر میں چولہا تک نہ جل سکا۔“

اپنے منہ میاں مٹھو بننا تو بہت آسان ہے مگر اس طرح کی سچائی کو زیر
تحریر لانا بڑے ظرف کی بات ہے۔

مجھے معلوم ہے قیصر فرضی ناموں سے مختلف اردو انگریزی اخباروں میں لکھتے
رہتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے پہلے مجموعہ ”جگ ہنسائی“ کی
اشاعت پر ناشر نے ان کو سو روپئے دیے تھے جس سے انہوں نے ایک سوٹ سلوایا
تھا یہ ۹۵۹۱ءکی بات ہے اس کتاب پر اتر پردیش حکومت نے ۰۵۲ روپئے کا نقد
انعام دیاتواس سے انہوں نے ایک کل ہند مقابلے کے امتحان کی فیس جمع کی۔
(یہ دوسری بات ہے کہ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے ایک مہنے
میں ملازمت چھوڑ دی اور اپنے عم محترم سے جن کی صاحبزادی سے قیصر کی شادی
ہوئی تھی یہ جھوٹ بولا کہ وہ امتحان میں فیل ہوگئے ہیں) بعد میں ان کے
چچا کو جب اصل بات معلوم ہوئی تو بیٹی کی قسمت اور داماد کی حماقت پر سر
پیٹ کر چپ ہوگئے۔ ویسے بھی اچھی اچھی ملازمتیں حاصل کرنا اور پھر بور
ہوکر استعفیٰ دیدینا ان کا مشغلہ تھا۔ٹائمز میں پورے چھ سال تک کام کرنے
کے بعد یونین کے سلسلے میں ایک اصولی اختلاف کی بناءپر استعفیٰ دے کر چلے
آئے۔

قیصر تمکین انتہائی منکسر المزاج ، سادہ طبیعت اور پر خلوص انسان تھے
نمود و نمائش سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ وہ ستائش کی تمنا یا صلہ کی پر وا
کئے بغیر اپنا کام کرتے تھے۔ ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ زہر ہلاہل کو قند
نہیں کہہ سکتے تھے۔ کسی انجمن تحسین باہمی کے ممبر نہیں تھے۔ شاید اسی
لئے انہیں وہ سستی شہرت حاصل نہیں ہوئی جسے پاکر اکثر لوگ اپنے کو عظیم
سمجھنے لگتے ہیں۔

قیصر اپنے افسانوں میں ہمیشہ کسی نہ کسی مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں
لیکن جو بات کہنا ہوتی ہے وہ اس طرح کہانی میں سمو دیتے ہیں کہ بعض اوقات
پڑھنے والے ان کے مقصد تک نہیں پہونچ پاتے۔ اس سلسلے میں دلچسپ مثال ان
کی تصنیف ”خبر گیر“ ہے۔ جس میں انہوں نے اس بات کا مذاق اڑایا ہے کہ صرف
انگریزی ذریعہ تعلیم پانے والے اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے ہی قابل اور
انگریزی داں ہوتے ہیں یا مغرب میں ہر ٹام، ڈک اور ہیری ذہانت اور دانش کا
پیکر ہوتا ہے۔ بعض لوگ بی بی سی اور ”ٹائمز“ جیسے اخبار کو صحیفہ ¿
آسمانی سمجھتے ہیں کہ مستند ہے میرا فرمایاہوا۔ قیصر نے جس طرح ”ٹائمز“
کا مذاق اڑایا ہے وہ تیسری دنیا کو چھوڑئے خود یورپ اور امریکہ کے
دانشوروں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ”خبر گیر“ کے ان دو مقاصد تک عام طور پر
کسی کی نظر نہیں گئی اور ڈاکٹر محمد حسن اور حنیف فوق جیسے لوگ بھی اس کو
خود نوشت سوانح عمری سمجھے۔ تو کہنا یہ تھا کہ قیصر کی کہانیوں میں جو
بات کہی جاتی ہے وہ اکثر پنہاں رہتی ہے۔ بقول قیصر بات اس طرح کہو کہ پند
و نصیحت نہ لگے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں کرشن چندر یا احمد عباس کی طرح
وعظ خوانی یا نعرہ بازی کرنا چاہوں گا تو کہانی لکھنے کی بجائے مضمون
لکھوں گا۔ اگر واجدہ تبسم کی طرح بھونڈے طریقے پر کسی جمی جمائی تہذیب کی
بخیہ ادھیڑنے کی کوشش کرنا ہوگی تو طنزیہ و استہزائیہ انشائیے لکھوں گا۔
کہانی لکھنا کیا ضروری ہے۔ موپاساں کی طرح خوش اسلوبی سے حقیقت کی جھلک
دکھانا یا منٹو کی طرح کسی مسئلے پر ”سرچ لائٹ“ پھینک کر توجہ دلانا ہی
میرا مقصد ہے۔ میں واعظ نہیں ہوں۔ سیاسی لیڈر نہیں ہوں یا کسی اسکول یا
کالج میں مدرس نہیں ہوں، الف لیلیٰ کی شہر زاد ایک ہزارراتوں تک کہانیاں
اور داستانیںسناتی رہتی ہے اور پھر ہم خود بخود اس نتیجے پر پہونچ جاتے
ہیں جو شہر زاد کا اصل مقصد تھا۔

قیصر کی اکثر کہانیوں میں بعض کردار ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ ہم کو شبہ
ہوتا ہے کہ خود ان کا نقطہ نظر یہی ہے۔ پھر اس کے بعد ہی وہ ایسی متضاد
اور مختلف باتیں بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم کو ان کی ”ناوابستگی“ کا احساس
ہوجاتا ہے مثلاً”میگھ دوت“ نامی کہانی میں ایک کردار کہتا ہے:

”تنہائی سے مفر کہاں؟ نئے نئے ملکوں میں گھومئے۔ نئے نئے شہر دیکھئے، نئے
نئے دوستوں سے ملئے اور نئے نئے تجربات سے دو چار ہوئیے۔ مگران سب باتوں
کے نتیجے میں ملتا کیا ہے؟ نئی نئی تنہائیاں۔یا ”تندور“نامی کہانی میں
ایک ناکام ترقی پسند شاعر اپنے سوا ساری دنیاکو الزام دیتے ہوئے کہتا ہے۔

”اردو میں ترقی پسندی کی تحریک اصل میں ایک شیعہ تحریک تھی اور مجھ کو
ہمیشہ سنی ہونے کی بنا پر نظر انداز کیا جاتا رہا۔“(ہم یہاں اس طنز لطیف
پر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے).

No comments:

Post a Comment