افتخار عارف 21 مارچ، 1943ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا ۔ کراچی یونیورسٹی سے ایم کیا۔ اپنی علمی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں بحیثیت نیوز کاسٹر کیا۔ پھر پی ٹی وی سے منسلک ہوگئے۔ اس دور میں ان کا پروگرام کسوٹی بہت زیادہ مقبول ہوا۔ بی سی سی آئی بینک کے تعاون سے چلنے والے ادارے ’’اردو مرکز‘‘ کو جوائن کرنے کے بعد آپ انگلینڈ تشریف لے گئے۔ انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین بنے۔ اکیڈیمی ادبیات کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔
فیض احمد فیض نے آج سے تیس برس پہلے اُس وقت کے ایک اُبھرتے ہوئے
شاعر کے بارے میں کہا تھا ’افتخار عارف کے کلام میں میرو مِیرزا سے لے کر فراق و راشد تک سبھی کی جھلکیاں موجود ہیں لیکن آپ نے اُن بزرگوں سے استفادہ کیا ہے، کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی بلکہ لَے اور آہنگ کی طرح کچھ ایسا ہی اجتہاد لُغت اور محاورے میں بھی کیا ہے۔ موضوع کی رعایت سے کہیں کلاسیکی اور ادبی زبان کے شِکوہ سے کام لیا ہے تو کہیں روزمرّہ کی بولی ٹھولی کو شعریت سے پیوند کیا ہے۔ حٰتی کہ غزل جیسی کافر صنف میں بھی کچھ انفرادی بڑھت کی ہے۔
فیض نے یہ بات اُس وقت کہی تھی جب افتخار عارف کا نام صرف مشاعروں اور ادبی جریدوں کی وساطت سے ہم تک پہنچا تھا اور ان کا اوّلین مجموعہء کلام ابھی مرتب ہو رہا تھا لیکن فیض نے اُن کے شعری خمیر کو پہچان لیا تھا اور جو بُنیادی خصوصیات اِس ضمن میں بیان کی تھیں وہ آنے والے برسوں میں واضح سے واضح تر ہوتی چلی گئیں۔
آج جب افتخار عارف کے تین مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر آچکے ہیں ہمیں فرموداتِ فیض کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ فیض صاحب نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا تھا ’افتخار عارف بڑے ہو کر کیا کریں گے یا نہیں کریں گے یہ موسیقی کی اصطلاح میں ان کے ریاض پر ہے، ۔۔۔ وہ کچھ اور نہ بھی کریں تو یہ کتاب (مہرِدونیم) جدید ادب میں انھیں ایک معتبر مقام دلوانے کے لئے کافی ہوگی‘۔
آج فیض صاحب کی روح یہ دیکھ کر یقیناً مسرور و مطمئن ہوگی کہ اُن کی خواہش اور ہدایت کے مطابق نوجوان شاعر نے ریاض کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور جِس معتبر مقام کی پیش گوئی انھوں نے کی تھی وہ خود چل کر شاعر کے قدموں میں آگیا ہے۔
افتخار عارف کی شاعری پر گذشتہ تیس برس کے دوران بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ چونکہ تراجم کے ذریعے عارف کا کلام امریکہ، برطانیہ، روس اور جرمنی وغیرہ میں بھی متعارف ہو چکا ہے اس لئے انگریزی، روسی اور جرمن میں بھی اس کلام پر تبصرے ہوئے ہیں۔
افتخار عارف اپنی نسل کے شعراء میں سنجیدہ ترین شاعر ہیں۔ وہ اپنے مواد اور فن دونوں میں ایک ایسی پختگی کا اظہار کرتے ہیں جو دوسروں میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ وہ عام شعراءکی طرح تجربہ کے کسی جزوی اظہار پر قناعت نہیں کرتے بلکہ اپنا پورا تجربہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ اسے سمیٹتے ہیں۔
اپنے مواد پر ان کی گرفت حیرت انگیز حد تک مضبوط ہے اور یہ سب باتیں مل کر ظاہر کرتی ہیں کہ افتخار عارف کی شاعری ایک ایسے شخص کی شاعری ہے جو سوچنا ، محسوس کرنا اور بولنا جانتا ہے جب کہ اس کے ہمعصروں میں بیشتر کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ سوچ نہیں سکتے یا وہ محسوس نہیں کر سکتے اورسوچ اور احساس سے کام لے سکتے ہیں تو بولنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ان کی ان خصوصیات کی بناء پر جب میں ان کے کلام کو ہم دیکھتے ہیں تو یہ احساس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ افتخار عارف کی آواز جدید اردو شاعری کی ایک بہت زندہ اور توانا آواز ہے۔ ایک ایسی آواز جو ہمارے دل و دماغ دونوں کو بیک وقت اپنی طرف کھینچتی ہے اور ہمیں ایک ایسی آسودگی بخشتی ہے جو عارف کے سوا شاید ہی کسی ایک آدھ شاعر میں مل سکے۔
شعری مجموعے
بارہواں کھلاڑی
مہر دو نیم
حرفِ باریاب
فیض احمد فیض نے آج سے تیس برس پہلے اُس وقت کے ایک اُبھرتے ہوئے
شاعر کے بارے میں کہا تھا ’افتخار عارف کے کلام میں میرو مِیرزا سے لے کر فراق و راشد تک سبھی کی جھلکیاں موجود ہیں لیکن آپ نے اُن بزرگوں سے استفادہ کیا ہے، کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی بلکہ لَے اور آہنگ کی طرح کچھ ایسا ہی اجتہاد لُغت اور محاورے میں بھی کیا ہے۔ موضوع کی رعایت سے کہیں کلاسیکی اور ادبی زبان کے شِکوہ سے کام لیا ہے تو کہیں روزمرّہ کی بولی ٹھولی کو شعریت سے پیوند کیا ہے۔ حٰتی کہ غزل جیسی کافر صنف میں بھی کچھ انفرادی بڑھت کی ہے۔
فیض نے یہ بات اُس وقت کہی تھی جب افتخار عارف کا نام صرف مشاعروں اور ادبی جریدوں کی وساطت سے ہم تک پہنچا تھا اور ان کا اوّلین مجموعہء کلام ابھی مرتب ہو رہا تھا لیکن فیض نے اُن کے شعری خمیر کو پہچان لیا تھا اور جو بُنیادی خصوصیات اِس ضمن میں بیان کی تھیں وہ آنے والے برسوں میں واضح سے واضح تر ہوتی چلی گئیں۔
آج جب افتخار عارف کے تین مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر آچکے ہیں ہمیں فرموداتِ فیض کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ فیض صاحب نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا تھا ’افتخار عارف بڑے ہو کر کیا کریں گے یا نہیں کریں گے یہ موسیقی کی اصطلاح میں ان کے ریاض پر ہے، ۔۔۔ وہ کچھ اور نہ بھی کریں تو یہ کتاب (مہرِدونیم) جدید ادب میں انھیں ایک معتبر مقام دلوانے کے لئے کافی ہوگی‘۔
آج فیض صاحب کی روح یہ دیکھ کر یقیناً مسرور و مطمئن ہوگی کہ اُن کی خواہش اور ہدایت کے مطابق نوجوان شاعر نے ریاض کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور جِس معتبر مقام کی پیش گوئی انھوں نے کی تھی وہ خود چل کر شاعر کے قدموں میں آگیا ہے۔
افتخار عارف کی شاعری پر گذشتہ تیس برس کے دوران بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ چونکہ تراجم کے ذریعے عارف کا کلام امریکہ، برطانیہ، روس اور جرمنی وغیرہ میں بھی متعارف ہو چکا ہے اس لئے انگریزی، روسی اور جرمن میں بھی اس کلام پر تبصرے ہوئے ہیں۔
افتخار عارف اپنی نسل کے شعراء میں سنجیدہ ترین شاعر ہیں۔ وہ اپنے مواد اور فن دونوں میں ایک ایسی پختگی کا اظہار کرتے ہیں جو دوسروں میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ وہ عام شعراءکی طرح تجربہ کے کسی جزوی اظہار پر قناعت نہیں کرتے بلکہ اپنا پورا تجربہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ اسے سمیٹتے ہیں۔
اپنے مواد پر ان کی گرفت حیرت انگیز حد تک مضبوط ہے اور یہ سب باتیں مل کر ظاہر کرتی ہیں کہ افتخار عارف کی شاعری ایک ایسے شخص کی شاعری ہے جو سوچنا ، محسوس کرنا اور بولنا جانتا ہے جب کہ اس کے ہمعصروں میں بیشتر کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ سوچ نہیں سکتے یا وہ محسوس نہیں کر سکتے اورسوچ اور احساس سے کام لے سکتے ہیں تو بولنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ان کی ان خصوصیات کی بناء پر جب میں ان کے کلام کو ہم دیکھتے ہیں تو یہ احساس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ افتخار عارف کی آواز جدید اردو شاعری کی ایک بہت زندہ اور توانا آواز ہے۔ ایک ایسی آواز جو ہمارے دل و دماغ دونوں کو بیک وقت اپنی طرف کھینچتی ہے اور ہمیں ایک ایسی آسودگی بخشتی ہے جو عارف کے سوا شاید ہی کسی ایک آدھ شاعر میں مل سکے۔
شعری مجموعے
بارہواں کھلاڑی
مہر دو نیم
حرفِ باریاب
No comments:
Post a Comment