Tuesday, March 15, 2011

جگر مراد آبادی

جگر مراد آبادی :مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

پٹنہ   رضوان احمد
Jigar MuradabadiJigar Muradabadi
گذشتہ صدی میں جن شعرا نے مشاعروں کے حوالے سے بہت نام کمایا ان میں سب سے اہم نام جگر مراد آبادی کا ہے۔ مشاعروں کے افق پر وہ نصف صدی تک چھائے رہے اور برصغیر میں بے شمار مشاعرے پڑھے ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔
 
جگر مراد آباد ی کا اصل نام علی سکندر تھا اور وہ چھ اپریل 1890ءکو بنار س میں پیدا ہوئے تھے۔ عربی وفارسی ارد و کی تعلیم انہوں نے مراد آباد کے ایک مدرسے میں حاصل کی تھی۔ ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے وہ چشمے کی ایک دکان سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس کے لیے ادھر ادھر کے سفر کیاکرتے تھے۔اسی زمانے میں انہیں شاعری کاچسکا لگا یوں توانہوں نے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا لیکن خط وکتابت کے ذریعہ وہ اس زمانے کے عظیم استاد مرزا داغ دہلوی سے خط وکتابت کے ذریعہ اصلاح لیاکرتے تھے۔ 

جگر کی شاعری نے عوام کے دلوں میں اس طرح گھر کرلیاتھا کہ پھر انہوں نے شاعری کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ ان کے تین شعر ی مجموعے ‘داغ جگر’،‘شعلہٴ طور’  اور ‘آتش گل’ شائع ہوئے۔ ان تینوں شعری مجموعوں نے ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ حالانکہ ناقدین عام طور پر مشاعروں کے شعرا کو منہ نہیں لگاتے تھے لیکن جگر کی شاعری صرف مشاعرے کی شاعری نہیں تھی ان کے یہاں جو خیالات ملتے ہیں اور اس میں جو بلندی ہے اسے ناقدین نظرانداز نہیں کرسکتے تھے۔ بھارت کا سب سے اہم ادبی انعام بھی آتش گل پر ہی دیاگیاتھا جو کہ اس ادارے کے قیام کے بعد پہلا انعام تھا۔ 
کسی ادارے کا انعام ملنا تو اور بات ہے انہیں سب سے بڑایہ انعام ملاتھا کہ عوام ان کی شاعری کو سننے کے لیے جوق درجوق آتے تھے اورکلام سن کر سرد ھنتے تھے۔ ان کے اشعار گلی گلی میں پڑھے جاتے تھے۔ کچھ غزلیں تو بے حد مشہور تھیں۔ان ہی میں یہ غزل ہے:
 
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے 
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے 
یہ عشق نہیں آساں اتناہی سمجھ لیجے 
اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے
آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگر لیکن
بندھ جائے سوموتی ہے رہ جائے سو دانا ہے

جگر مرادآبادی خالص تغزل کے شاعر ہیں اور ان کے یہاں جوشیفتگی اور وارفتگی ہے اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔اسی لیے انہیں کبھی شہنشاہِ تغزل اور کبھی رئیس المتغز لین کہاگیا اور بلا شبہ وہ اس کے مستحق تھے۔ جگرنے صاف ستھری اور سلیس زبان کا استعمال تو کیا ہی ہے ساتھ ساتھ اپنی غزل میں کلاسکیا محاورات اوراستعارات کابھی استعمال کیا ہے۔ محبت کے موضوع کو انہوں نے مختلف زاو یو ں سے دیکھا اور پرکھا ہے اور اس موضوع پر تازہ کار اشعار کہے ہیں اور یہی جگر کا مخصوص انداز ہے:

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد 
اب مجھ کونہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

جز عشق معتبر یہ کسی کو خبر نہیں 
 ایسا بھی حسن ہے جوبقید نظر نہیں 

آج نہ جانے راز یہ کیا ہے 
ہجر کی رات اور اتنی روشن 
تجھ سا حسیں اورخون محبت 
وہم ہے شاید سرخی دامن 

ان کاجو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میراپیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے 

جگر کے یہاں اشعار میں غنایت ہے کیونکہ وہ خود بہت مترنم شاعر تھے اور انہوں نے اپنی تمام غزلوں میں اسے برتا ہے۔ لیکن گرد وپیش کے حالات سے بھی کبھی بے خبر نہیں رہے۔ انہوں نے حالات حاضرہ کواپنے اشعار میں سمیٹا ہے:

آدمی آدمی سے ملتا ہے 
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے 
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
 گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز 
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جارہا ہوں میں
کانٹوں کابھی حق ہے کچھ آخر 
کون چھڑائے اپنادامن 

جگر مراد آبادی نے قحطِ بنگال پر جو نظم کہی تھی۔ وہ ا س دور کی بہت ہی موثر نظم مانی جاتی ہے:
 
انسان کے ہوتے ہوئے انسان کا یہ حشر 
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں 

جگر مراد آبادی کوفلمی دنیا سے کئی بار پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے اس چمک دمک والی دنیا میں جانے سے انکار کردیا۔ البتہ انہوں نے اپنے دو شاگردوں شکیل بدایونی اور مجروح سلطان پوری کو ضرور فلمی دنیا میں بھیج دیاتھا اوران دونوں نے نہ صرف وہاں کافی دولت کمائی بلکہ نا مو ری بھی حاصل کی۔ ان کا انتقال نوستمبر 1960 ء میں ہوا۔ 

جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر 
عمر بھرکی بے قراری کو قرار آہی گیا

جگر کے بعد مشاعروں میں ان کی کمی بے حد محسوس کی جاتی رہی کیونکہ وہ خود ہی کہہ گئے تھے:

جان کر منجملہٴ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

No comments:

Post a Comment