Saturday, January 29, 2011

urdu rani




Friday, January 21, 2011

شاعر ترا، انشاء ترا-ابن انشاء کی آخری آرام گاہ

شاعر ترا، انشاء ترا-ابن انشاء کی آخری آرام گاہ

11 جنوری 1978 انشاء جی کی تاریخ وفات ہے، حال ہی میں گزرے اس دن کو
پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز نے یاد رکھا اور خبر نشر کی لیکن کسی نے
انشاء جی کی قبر کی تصویر نہ دکھائی، وجہ اس کی یہ ہے کہ انشاء جی کی قبر
پر کتبہ نہیں ہے۔ (منسلک تصاویر میں پہلی تصویر اس احاطے کی ہے جس کی
درمان والی قبر انشاء جی کی ہے)

21 جنوری 2011 کی ایک ڈھلتی شام کو مشفق خواجہ صاحب کی لائبریری کا قصد
تھا اور وہاں حآضری سے قبل خیال آیا کہ انشاء جی کو سلام کرلیا جائے۔ دو
برس پیشتر کراچی کے ایک نجی ٹی وی کے ایک رپورٹر نے، جن کو ہم جناب ابن
صفی کی قبر پر لے گئے تھے، قریب سے گزرتے وقت ہاتھ کے اشارے سے کہا تھا
"یہ انشاء جی کی قبر ہے"
جس طرف وہ ہاتھ کا اشارہ کرتا تھا وہ قبرستان کا داخلی رستہ تھا، گاڑی
چشم زدن میں اس کے سامنے سے گزر گئی تھی۔ دع برس کا عرصہ گزرا اور کچھ تگ
و دو کے بعد  نہ صرف انشاء جی کی نے نام و نشان قبر ملی بلکہ وہاں
اطمینان سے فاتحہ پڑھنے کا موقع بھی نصیب ہوا:

تو باوفا، تو مہرباں، ہم اور تجھ سے بدگماں؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھہرا ترا
ہم پر یہ سختی کی نظر؟ ہم ہیں فقیر راہگزر
رستہ کبھی روکا ترا، دامن کبھی تھاما ترا
ہاں ہاں تیری صورت حسیں لیکن تو اتنا بھی نہیں
اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا

پی آئی سے کی جس فلائٹ سے انشاء جی کا تابوت آیا تھا اس کے پائلٹ نے
استاد کی آواز میں ‘انشاء جی اٹھو‘ لگادی تھی اور راوی بیان کرتا ہے کہ
تمام مسافروں کی آنکھیں اشکبار تھیں

نریش کمار شاد تقسیم کے بعد دلی سے لاہور آئے تو منٹو صاحب کی قبر پر جا
کر بہت روئے اور کہا:

" خدا مسلمانوں کو خوش رکھے- ہمارے پیاروں کا نشان (قبر) تو بنا دیتے ہیں

ہم اپنے مشاہیر ادب کے واسطے ان کی زندگی میں اور تو کچھ نہیں کرسکتے،
وقات کے بعد کم از کم ان کی قبر پر ایک کتبہ تو لگا سکتے ہیں

Thursday, January 20, 2011

سید احمد شاہ فراز

اصلی نام: سید احمد شاہ
تخلص: فراز
پیدائش: 14 جنوری، 1931
انتقال: 25 اگست، 2008
نامور شاعر احمد فراز طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں 25 اگست، 2008 پیر اور منگل کی درمیانی شب خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے انہیں علاج کیلئے امریکہ بھی لے جایا گیا تھا بعد میں انہیں وطن واپس لایا گیا جہاں وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے تاہم آج شب مالک حقیقی سے جا ملے ان کے بیٹے نے ان کی انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہاہے کہ ان کے والد داغ مفارقت دے گئے ہیں اور وہ ہسپتال میں رات بارہ بجے کے قریب اس دار فانی سے کوچ کر کے عالم جاودانی کی طرف چلے گئے تھے ۔
احمد فراز (سید احمد شاہ) 14 جنوری 1931 کو صوبہء سرحد کے بالائی علاقے نوشہرہ (اٹک) میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم ’’اسلامیہ ہائی اسکول‘‘ کوہاٹ میں حاصل کی ، جبکہ بی اے کی سند ’’ایڈورڈ کالج‘‘ پشاور سے حاصل کی۔ بعد ازاں ، فراز نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کی سند حاصل کی۔زمانہ طالب علمی (نویں دسویں جماعت) میں ہی فراز نے غزلیں اور نظمیں کہنا شروع کردی تھیں اور جب وہ کالج پہنچے تو پشاور کے ادبی حلقوں میں بحیثیت پہلے ہی شاعر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوچکے تھے۔مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل ’’ رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیئے آ ‘‘ سے احمد فراز کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔
فراز نے معاشی حوالے سے یکے بعد دیگرے کئی ملازمتیں اختیار کیں، سب سے پہلے ریڈیوپاکستان میں بطور پروڈیوسر کام کیا، بعد ازاں انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور میں بحیثیت اردو و فارسی کے لیکچرار کے کسبِ معاش کیا، اس کے بعد وہ پاکستان نیشنل سینٹر میں صدر ہدایتکار (پریذیڈنٹ ڈائریکٹر) رہے اور تفویض کی گئی ذمہ داریاں کماحقہ ادا کرنے پر ’’ پاکستان اکادمی ادبیات ‘‘ کے چئیر مین کے منصبِ اعلی پر فائز ہوئے اورپاکستان کے ثقافتی ورثہ کے چئیرمین منتخب ہوئے ساتھ ہی’’قومی اساسِ کتب ‘‘ (نیشنل بک فاؤنڈیشن) کے چیئر مین بھی رہے۔
شعری سفر اختیار کرنے کے بعد کچھ ہی عرصے میں فرازمعروف ترین و متبادل شاعر کے طور پر جانیجانے لگے اور وہ بھی فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی اور حبیب جالب ایسی نابغہ روزگار ہستیوں کے ہوتے ہوئے۔فراز مملکتِ اردو ادب کے واحد شاعر تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں بے پایاں عالمگیر شہرت حاصل کی، فراز کے اسالیبِ شعری کی خاص بات زندگیوں پر براہِ راست اثر پزیری، بلاواسطہ اور آلودگیِ نشیب سے مبّرا سچائی، غزل کی نغمگی، کیفیات و جذبات و وجدان کا کھرا پن ، ندرتِ خیال،دل موہ لینے والی رومانوی و خواب آور کسک، گمان کے ہلکورے لیتے کٹورے، یقین کے ہمالے اور تصنّوع کی آلائشوں سے پاک جمالیاتی شاعرانہ اظہارہے۔
فراز، فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کی طرح اپنے عام قارئین اور ادبی فہم رکھنے والوں کے دلوں میں یکساں دھڑکتے تھے، جب وہ ترقی پسندی کی تحریک میں پوری طرح منہمک تھے تو ان کے شعری اظہار میں قدرتی سماجی سیاسی شعور بھی ضوفشاں نظر آنے لگا، پاکستان جیسے معاشرے کے تناظر میں جہاں عوام واقدار قتل ہوتا ہے وہاں ترقی پسندی اور سیاسی بصیرت پر مبنی اسلوب اپنی نفی کردینے کے مترادف ہے فراز دل جمعی سے اپنا اسلوب نکھارتے رہے اور استحصالی طبقے کیلئے آواز بلند کرتے رہے، اب ان کی شاعری میں (اداریاتی استعماروں کے خلاف)’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ رویہ پروان چڑھ رہا تھا، فراز معاشرتی المیہ پر ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ سے ہمیشہ کا بیر رکھتے تھے، فراز، فیض کی طرح شعری اظہار کے تناظر میں اپنے اسلوب پر سختی سے کاربند رہے اور اظہار کو نعرے بازی سے پاک رکھتے ہوئے کیفیات کے مدھر سروں کو تاثرات کاجامہ پہناتے رہے، وہ فلسفہ اور منطقی پیرائے میں توازن کے فن سے بخوب واقف تھے۔
ضیاء الحق کے دور حکومت کے دوران احمد فراز نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی اور وہ اس دوران تین سال تک برطانیہ ، کینیڈا اور یورپ میں قیام پذیر رہے جلا وطنی کے دوران انہوں نے اپنی بہترین انقلابی نظمیں تخلیق کیں جن میں ’’ محاصرہ ‘‘ مشہور ترین نظم ہے۔ ان کی دیگر مشہور شاعری مجموعہ میں تنہا تنہا، دردِ آشوب، نایافت، جاناں جاناں، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، خوابِ گل پریشاں ہے اور پیماں ، شامل ہیں۔
احمد فراز کو ان کی زندگی میں ‘‘آدم جی ایوارڈ ‘‘ (پاکستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ)، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ، ٹاٹا ایوارڈ، اکادمی ادبی ایوارڈ ، کینیڈا سے نوازا گیا۔ انہوں نے بیشمار قومی ایوارڈز حاصل کیے۔ ان میں سب سے اہم ہلال امیتاز 2004 میں حاصل کیا جو حکومتی پالیسیوں کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔
احمد فراز کی ایک غزل سے پسندیدہ اشعار
ہم سنائیں تو کہانی اور ہے
یار لوگوں کی زبانی اور ہے
جو کہا ہم نے وہ مضمون اور تھا
ترجمان کی ترجمانی اور ہے
نامہ بر کو کچھ بھی ہم پیغام دیں
داستاں اس نے سنانی اور ہے
آپ زمزم دوست لائے ہیں عبث
ہم جو پیتے ہیں وہ پانی اور ہے
شاعری کرتی ہے اک دنیا فراز
پر تیری سادہ بیانی اور ہے
فراز صاحب اپنے وطن پاکستان میں جتنے مشہور و معروف تھے ، اتنے ہی ہندوستان میں بھی مقبول تھے۔ وہ بھارت کو اپنا دوسرا گھر بھی کہتے تھے۔ ہندوستان کے کسی بھی بڑے مشاعرے میں ان کی شرکت ضروری سمجھی جاتی تھی۔ پچھلے دنوں شنکر۔شاد مشاعرے کے علاوہ جشنِ بہار میں بھی وہ مدعو رہے اور سامعین کے پْرزور اصرار پر اپنی وہ طویل غزل بھی سنائی تھی :
سنا ہے لوگ اْسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
اپنے ایک انٹرویو میں فراز نے کہا تھا : دکھی لوگوں نے مجھے بہت پیار دیا ہے۔ اور اسی ضمن میں ان کا ایک مشہور شعر ہے۔۔۔
اب اور کتنی محبتیں تمہیں چاہئے فراز
ماؤں نے ترے نام پہ بچوں کے نام رکھ لئے
فراز کی رحلت کو یہ شعر بھی اچھی طرح بیان کرتا ہے۔۔۔
کیا خبر ہم نے چاہتوں میں فراز
کیا گنوایا ہے کیا ملا ہے مجھے
فراز گزر گئے ، لیکن فراز کی شاعری کل ، آج اور آنے والے کل بھی ہر سخن فہم کو کتابوں میں دبے پھولوں کی طرح مہک دئے جائے گی۔۔۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو نشہ برپا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں
ایک شاعر جب اپنی وارداتِ قلبی بیان کرتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ اسکا ایک ایک لفظ سچ ہے، آفاقی حقیقت ہے اور اٹل اور آخری سچائی ہے اور ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ کسی انسان کے اوپر جو گزرتی ہے وہی اس کیلئے حقیقت ہے، فراز کی اپنی زندگی اپنے اس شعر کے مصداق ہی گزری اور کیا آفاقی اور اٹل سچائی ہے اس شعر میں:
میں زندگی سے نبرد آزما رہا ہوں فراز
میں جانتا تھا یہی راہ اک بچاؤ کی تھی
فراز کی شاعری انسانی جذبوں کی شاعری ہے وہ انسانی جذبے جو سچے بھی ہیں اور آفاقی بھی ہیں، فراز بلاشبہ اس عہد کے انتہائی قد آور شاعر تھے۔ فراز کی زندگی کا ایک پہلو انکی پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد ہے، اس جدوجہد میں انہوں نے کئی مشکلات بھی اٹھائیں لیکن اصول کی بات کرتے ہی رہے۔ شروع شروع میں انکی شاعری کی نوجوان نسل میں مقبولیت دیکھ کر ان کی شاعری پر بے شمار اعتراضات بھی ہوئے، انہیں ‘اسکول کالج کا شاعر’ اور ‘نابالغ’ شاعر بھی کہا گیا۔ مرحوم جوش ملیح آبادی نے بھی انکی شاعری پر اعتراضات کیئے اور اب بھی انگلینڈ میں مقیم ‘دریدہ دہن’ شاعر اور نقاد ساقی فاروقی انکی شاعری پر بہت اعتراضات کرتے ہیں لیکن کلام کی مقبولیت ایک خدا داد چیز ہے اور فراز کے کلام کو اللہ تعالٰی نے بہت مقبولیت دی۔ انکی شاعری کا مقام تو آنے والا زمانے کا نقاد ہی طے کرے گا لیکن انکی آخری کتاب ‘‘اے عشق جنوں پیشہ’’ جو پچھلے سال چھپی تھی، اس میں سے ایک غزل لکھ رہا ہوں جو انہوں نے اپنے کلام اور زندگی کے متعلق کہی ہے اور کیا خوب کہی ہے۔
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا

ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار بے فیض سے ہلکا سا ملال اچھا ہے
لذتیں قرب و جدائی کی ہیں اپنی اپنی
مستقل ہجر ہی اچھا نہ وصال اچھاہے
رہروان رہ الفت کا مقدرمعلوم
ان کا آغاز ہی اچھا نہ مال اچھا ہے
دوستی اپنی جگہ، پر یہ حقیقت ہے فراز
تری غزلوں سے کہں تیرا غزال اچھا ہے

احمد فراز کی رحلت بلا شبہ اردو کے ایک عظیم دور کا خاتمہ ہے، ایک ترقی پسند شاعر اس دنیا سے چلا گیا، ایسے ہی لوگوں کیلئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا

my website

www.startnewstoday.com